صبح سویرے ڈاخاؤ حراستی کیمپ کا منظر۔

1933 اور 1945 کے دوران نازی جرمنی نے جن لاکھوں افراد کو اپنا ہدف بنایا اُن کو قید میں ڈالنے کیلئے 20 ھزار کیمپ قائم کئے۔ اِن کیمپوں کو کئی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا جن میں جبری مشقت کے کیمپ، عارضی کیمپ جو منزل تک پہنچانے سے پہلے عارضی رہائش گاہ کیلئے استعمال ہوتے اور پھر استیصالی کیمپ جو بنیادی طور پر یا خصوصی طور پر قتل عام کیلئے قائم ہوئے۔ 1933 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نازی حکومت نے نام نہاد "ملک دشمن" افراد کو قید کرنے اور اُنہیں ختم کرنے کیلئے حراستی کیمپوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ابتدائی حراستی کیمپوں میں بیشتر قیدی جرمن کمیونسٹ، سوشلسٹ، سوشل ڈیموکریٹ، روما خانہ بدوش، یہوواز وھٹنس، ہم جنس پرست اور ایسے افراد شامل تھے جنہیں سماج مخالف رویوں کے حامل یا معاشرتی رویوں سے بھٹکے ہوئے افراد قرار دیا جاتا تھا۔ اِن تنصیبات کو "حراستی کیمپ" کہا جاتا تھا کیونکہ وہاں قید کئے جانے افراد کو ایک ہی جگہ پر بند رکھا جاتا تھا۔

مارچ 1938 میں جرمنی سے آسٹریہ کے الحاق کے بعد نازیوں نے جرمنی اور آسٹریہ کے یہودیوں کو گرفتار کر کے ڈاخو، بوخنوالڈ اور سیخ سین ہوسن حراستی کیمپوں میں قید کر دیا۔ یہ تمام کیمپ جرمنی میں تھے۔ نومبر 1938 میں انتہائی تشدد آمیز پروگرام کرسٹل ناخٹ (ٹوٹے شیشوں کی رات) کے بعد نازیوں نے یہودی مرد وں کو وسیع پیمانے پر گرفتار کیا اور اور اُنہیں مختصر وقت کیلئے اِن کیمپوں میں بند کر دیا۔

ستمبر 1939 میں پولنڈ پر جرمن حملے کے بعد نازیوں نے جبری مشقت والے کیمپ قائم کئے جہاں ھزاروں کی تعداد میں قیدی تھکن، بھوک پیاس اور شدید موسم کے باعث موت کا شکار ہو گئے۔ ایس۔ ایس یونٹوں نے کیمپوں کی نگرانی کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی کیمپوں کے نظام میں تیزی کے ساتھ توسیع ہوئی۔ بعض کیمپوں میں نازی ڈاکٹروں نے قیدیوں پر طبی تجربے بھی کئے۔

جون 1941 میں سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد نازیوں نے جنگي قیدیوں کے کمپوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔ بعض نئے کیمپوں کو مقبوضہ پولینڈ میں آشوٹز جیسے پہلے سے موجود کیمپوں کے احاطے میں قائم کیا گیا۔ لوبن کیمپ جو بعد میں مجدانیک کیمپ کے نام سے جانا گیا 1941 کے موسم خزاں میں جنگی قیدیوں کے کیمپ کے طور پر قائم ہوا اور 1943 میں اسے حراستی کیمپ بنا دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں سویت جنگي قیدیوں کو وہاں گولی مار کر یا گیس سے ہلاک کر دیا گيا۔

لوڈز گھیٹو کے یہودیوں کو جلا وطن کر کے چیلمنو قتل گاہ پہنچانے کیلئے مال گاڑیوں میں سوار کرایا جارہا ہے۔

"حتمی حل" (یہودیوں کی قتل و غارتگری اور وسیع پیمانے پر تباہی) پر عملدرآمد کیلئے نازیوں نے پولینڈ میں خاتمہ کیمپ قائم کئے۔ پولینڈ میں یہودیوں کی آبادی سب سے زیادہ تھی۔ استعصالی کیمپ یا قتل گاہیں مؤثر انداز میں وسیع پیمانے پر قتل کیلئے بنائی گئی تھیں۔ پہلی قتل گاہ چیلمنو 1941 میں کھولی گئی۔ وہاں یہودیوں اور روما خانہ بدوشوں کو گشتی گیس گاڑیوں میں قتل کیا گیا۔ 1942 میں نازیوں نے بیلزیٹس، سوبی بور اور ٹریبلنکا کی قتل گاہیں کھولیں جہاں جنرل گورنمنٹ (مقبوضہ پولینڈ کے اندر واقع علاقے کو کہتے ہیں) کے یہودیوں کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔

نازیوں نے گیس چیمبر تعمیر گئے (یہ وہ کمرے تھے جو زہریلی گیس سے بھر دئے جاتے اور یوں اُن کے اندر موجود افراد ختم ہو جاتے)۔ اِن گیس چیمبرز کا مقصد کارکردگی بہتر بنانا اور اِس عمل کو ظلم کرنے والوں کیلئے زیادہ غیر شخصی بنانا تھا۔ آشوٹز کیمپ کمپلیکس کی برکینو قتل گاہ میں چار گیس چیمبر تھے۔ جلا وطن کئے گئے افراد کی بڑی تعداد کو اِس کیمپ میں بھیجے جانے کے وقت میں 8 ھزار تک یہودیوں کو روزانہ گیس کے ذریعے مار دیا جاتا تھا۔

نازی مقبوضہ علاقوں میں موجود یہودیوں کو پہلے تو ہالینڈ میں ویسٹربروک یا فرانس میں ڈرینسی کے عارضی کیمپوں میں جلاوطن کیا جاتا اور پھر وہاں سے اُنہیں مقبوضہ پولینڈ میں موجود قتل گاہوں میں لایا جاتا۔ عارضی کیمپ قتل گاہوں میں جلاوطن کئے جانے والے افراد کیلئے عام طور پر آخری پڑاؤ ہوتے تھے۔

مختلف طرح کے نازی کیمپوں میں لاکھوں لوگوں کو قید کیا جاتا اور اُن کو اذیتیں دی جاتیں۔ ایس۔ ایس انتظامیہ کے تحت جرمنوں اور اُن کے اتحادیوں نے صرف اِن قتل گاہوں میں ہی 30 لاکھ سے زائد یہودیوں کو ھلاک کیا۔ نازی کیمپوں میں قید کئے جانے والے افراد کی ایک قلیل تعداد ہی بچ پائی تھی۔