نازی علاقائی جارحیت: انشلس
1930 کی پوری دہائی کے دوران، نازی جرمنی نے ایک جارحانہ خارجہ پالیسی کو اختیار کیے رکھا۔ اس کا نتیجہ عالمی جنگِ عظیم دوم کی صورت میں نکلا، جس کا آغاز ستمبر 1939 میں یورپ میں ہوا تھا۔ قبل از جنگ اور دوران جنگ علاقائی توسیع کے نتیجے میں لاکھوں یہودی جرمنی کے زیرِ تسلط آ گئے۔ 11–13 مارچ 1938 کو نازی جرمنی نے پڑوسی ملک آسٹریا پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ یہ واقعہ انشلس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اہم حقائق
-
1
انشلس نازی جرمن حکومت کی علاقائی جارحیت اور توسیع کی ایک پہلی کارروائی تھی۔
-
2
انشلس جرمنی اور آسٹریا دونوں ممالک میں کافی بڑے پیمانے پر مقبول تھا۔
-
3
انشلس کا نتیجہ آسٹریا کی یہودی آبادی پر عوامی تشدد کے آغاز کی صورت میں نکلا۔
11–13 مارچ 1938 کو نازی جرمنی نے پڑوسی ملک آسٹریا (Österreich) کو اپنے تسلط میں لے لیا تھا۔ یہ واقعہ انشلس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ "انشلس" ایک جرمن لفظ ہے جس کا مطلب "جڑ جانا" یا "شامل ہو جانا ہے۔"
آسٹریا: نقشے آسٹریا پر قبضہ جما کر، نازیوں نے ورسائی کے معاہدے اور سینٹ جرمین کے معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔ یہ معاہدے آسٹریا اور جرمنی کے اتحاد کی صریح طور پر ممانعت کرتے تھے۔ انشلس نے بعد از جنگ عظیم اول یورپی حکم کے لیے نازی نفرت و حقارت کا مظاہرہ کیا۔ یہ نازی جرمنی کی جانب سے علاقائی توسیع کی پہلی کارروائی تھی۔
دیگر یورپی طاقتوں نے نازیوں کو بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر سزا نہیں دی۔ ان کی جانب سے انشلس کو قبول کرنا مفاہمت اختیار کرنے کے تئیں ایک اہم عمل تھا۔ اس عمل نے ایڈولف ہٹلر کو اپنی توسیعی پالیسیوں کو پرکھے بغیر جاری رکھنے دیا۔
انشلس نے آسٹریا کو بدل کر رکھ دیا۔ تقریباً راتوں رات آسٹریا ملک کا وجود ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں، آسٹریائی اور جرمن نازیوں نے آسٹریائی زندگی کے تمام پہلوؤں کو نازی بنانے کا عمل انجام دیا۔ بہت سے آسٹریائی باشندوں نے اس جدوجہد میں جوش و جذبے سے حصہ لیا۔ انشلس کے نتیجے میں، آسٹریائی عوام نے ملک کے یہودیوں کو ستانا شروع کر دیا۔ انہوں نے نازی پالیسیاں وضع کیں۔ اور وہ جنگِ عظیم دوم میں لڑے۔ آسٹریائی عوام نے بھی یورپ کے یہودیوں کے قتلِ عام میں حصہ لیا۔
انشلس ناگزیر نہیں تھا۔ اور نہ ہی آسٹریا کی برق رفتاری سے نازی سازی کا عمل ناگزیر تھا۔ تاہم، بعض تاریخی عوامل اور واقعات نے ان عوامل میں سہولت فراہم کی۔
آسٹریا میں نسلی جرمن
جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوم کے درمیان، آسٹریا تقریباً 6.5 ملین آبادی پر مشتمل ملک تھا۔ ان میں سے بیشتر آسٹریائی خود کو نسلی طور پر جرمن تصور کرتے تھے۔
اس وقت، لاکھوں لوگ جو خود کو جرمن سمجھتے تھے جرمنی سے باہر مقیم تھے۔ ان میں سے بہت سے ایسے علاقوں میں رہتے تھے جو پہلے آسٹرو-ہنگری سلطنت کا حصہ رہے تھے۔1 آسٹریا-ہنگری جنگِ عظیم اول کے اختتام پر 1918 میں منہدم ہو گئی تھی۔ اس کی جگہ نئی ریاستیں قائم کی گئی تھیں۔ ان میں آسٹریا، چیکوسلواکیہ اور پولینڈ شامل تھے۔ یہ ممالک ان لاکھوں افراد کا گھر تھے جو خود کو جرمن سمجھتے تھے اور ان کا بھی جو جرمن اپنی ابتدائی زبان کے طور پر بولتے تھے۔
1920 کی دہائی میں، بہت سے آسٹریائی باشندوں نے یہ نہ سوچا تھا کہ ان کا ملک سابقہ طور پر آسٹریا-ہنگری کے زیرِ اختیار سر زمینوں کے بغیر معاشی طور بقاء قائم رکھ سکتا ہے۔ کچھ آسٹریائی عوام ایک انداز کی سلطنت کو بحال کر کے اس مسئلہ کو حل کرنے کی امید رکھتے تھے۔ جبکہ باقی آسٹریا کے جرمنی کے ساتھ اتحاد کے خواہاں تھے۔ آسٹریا اور جرمنی کے متحد ہونے کی امید نئی نہیں تھی۔ جرمن قومی-ریاست میں آسٹریا کے کردار کے بارے میں 19 ویں صدی میں بحث و مباحثے کیے گئے تھے۔
جنگ عظیم اول کو اختتام پر پہنچانے والے امن و امان کے معاہدے جرمنی اور آسٹریا کو متحد ہونے سے صریح طور پر منع کرتے تھے۔ یورپی سربراہاں اس بات سے پریشان تھے کہ ایک متحدہ جرمنی اور آسٹریا مل کر بہت بڑا اور طاقتور بن جائے گا۔ ما بعد کے بین الاقوامی مالیاتی معاہدے بھی اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ آسٹریا کو جرمنی سے آزاد رہنا چاہئیے۔
ایڈولف ہٹلر کے آسٹریا کے لیے منصوبے
ایڈولف ہٹلر اور نازی جنگ عظیم اول کے بعد کے یورپ کا نقشہ دوبارہ کھینچنا چاہتے تھے۔ ہٹلر اور نازیوں نے جنگ کے بعد کی بین الاقوامی سرحدوں کو غیر منصفانہ اور ناجائز خیال کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جرمنوں کو حق خود ارادیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یورپ کی سرحدیں دوبارہ بنانے سے نازیوں کو دو اہم مقاصد حاصل کرنے کا موقع ملنا تھا:
- تمام جرمن افراد کو نازی جرمن سلطنت میں یکجا کرنا؛
- اور مشرقی یورپ میں لیبنسروم ("رہنے کی جگہ") حاصل کرنا۔
آسٹریا کے الحاق سے نازیوں کو پہلا مقصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
ایڈولف ہٹلر اپنی ابتدائی تحریروں اور تقاریر میں آسٹرو۔جرمن یونین کی خواہش کا اظہار کرتے تھے۔ نازی جماعت پلیٹ فارم کا پہلا نقطہ نظر (1920) کچھ یوں تھا:
"ہم قومی خود ارادیت کے حق کی بنیاد پر گریٹر جرمنی (Großdeutschland) میں تمام جرمنوں کے اتحاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
ہٹلر نے آسٹریا اور جرمنی کے درمیان مستقبل کے تعلقات سے متعلق اپنے نقطہ نظر کے ساتھ اپنی سوانح حیات اور سیاسی مقالہ Mein Kampf کو متعارف کرایا۔ اس نے لکھا،
"... [جرمنی اور آسٹریا کا] دوبارہ اتحاد ایک کارِ حیات ہے جسے ہر ایک شخص کے ذریعے پایہ تکمیل پہنچایا جائے گا! جرمن۔آسٹریا کو عظیم جرمن مادر وطن میں دوبارہ قائم کیا جائے گا...ایک ہی خون کے لوگ ایک ہی حکومت میں ہونے چاہئیں۔"
جنوری 1933 میں ایڈولف ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا گیا۔ بحیثیت چانسلر، وہ آسٹرو-جرمن یونین تشکیل دینے کا پورا ارادہ رکھتا تھا۔ تاہم، جرمنی ہٹلر کی خارجہ پالیسی کے اہداف کو انجام دینے کے لیے فوری طور پر عسکری اور سفارتکاری کے لحاظ سے تیار نہ تھا۔ سب سے پہلے، ہٹلر اور دیگر نازی سربراہان نے نازی آمریت قائم کرنے پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔ تاہم، پسِ پردہ، نازی قیادت نے اقتدار سنبھالتے ہی علاقائی توسیع اور یورپی جنگ کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔
آسٹریائی نازی تحریک کا عروج اور اثر
ہٹلر نے آسٹریائی نازی جماعت کے ذریعے آسٹریا میں اقتدار حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن، 1920 کی دہائی کے اواخر اور 1930 کی دہائی کے اوائل میں، آسٹریائی نازی جماعت کمزور، بٹی ہوئی اور بے اثر تھی۔ جماعت کے اراکین ہٹلر سے ان کے تعلقات اور ان کے جرمن ہم منصبوں سے متفق نہیں تھے۔ لیکن، 1931 تک، آسٹریا کے نازیوں کی اکثریت نے ہٹلر کو اپنا سربراہ تسلیم کر لیا۔ ہٹلر نے اس وجہ سے آسٹریائی جماعت سے اپنی بات منوانے کے لیے ایک جرمن نازی کو تعینات کیا۔
1931–1932 میں آسٹریائی نازیوں کے حامیوں میں اضافہ ہوا کیونکہ جرمنی میں ہٹلر کی مقبولیت کافی بڑھ گئی تھی۔ بلکہ جنوری 1933 میں ہٹلر کے جرمن چانسلر کے عہدہ پر تعینات ہونے کے بعد آسٹریا میں یہ اور بھی زیادہ نمایاں ہوگیا تھا۔
برسوں تک، آسٹریائی سیاست میں اندرونی لڑائی اور سیاسی تشدد کا عنصر شامل رہا تھا۔ 1933 میں نازیوں کے عروج پانے نے صورتحال کو مزید غیر مستحکم کر دیا۔ اس لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، آسٹریائی چانسلر اینجلبرٹ ڈولفس نے آسٹریا کو ایک ڈیموکریٹک جمہوریہ سے اپنے زیرِ اختیار دائیں بازو کی آمرانہ حکومت میں تبدیل کر دیا۔ اس حکومت کو کارپوریٹ اسٹیٹ (Ständestaat) کہا جاتا ہے۔ اسے آسٹروفاشسٹ ریاست یا ڈولفس-شوشنگ (Dollfuss-Schuschnigg) حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ ڈولفس کی حکومت سفارتی لحاظ سے فسطائی اٹلی اور آمرانہ ہنگری سے وابستہ تھی۔
اپنے اتحادیوں کی طرح، چانسلر ڈولفس آسٹریا میں سیاسی بائیں بازو کو کچلنے کے لیے پرعزم تھا۔ تاہم، ڈولفس اور آسٹروفاشسٹس نازی نہیں تھے۔
آسٹریا میں نازی دہشت گردی کی مہم، 1933
آسٹریائی نازیوں نے ایک پروپیگنڈا اور دہشت گردی کی مہم شروع کی جس کا مئی 1933 میں آغاز ہوا۔ اس مہم کی حوصلہ افزائی اور مالی امداد جرمنی نے فراہم کی۔ نازیوں کا مقصد ڈولفس کی حکومت کو نااہل ظاہر کر کے اس کی جڑیں کمزور کرنا تھا۔ انہوں نے انتشار انگیز مظاہروں کا منصوبہ بنایا اور سیاسی مخالفین اور پولیس کے ساتھ دنگا فساد کرنے لگے۔ آسٹریائی نازیوں نے عوامی مقامات اور یہودیوں کے ملکیتی کاروباروں پر دھماکہ خیز مواد سے دھماکے کیے اور آنسو گیس کے بم پھینکے۔
جرمنوں نے دعویٰ کیا کہ آسٹریا کی حکومت آسٹریائی نازیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کر رہی ہے۔ مئی 1933 کے اواخر میں، جرمن حکومت نے آسٹریا کے خلاف اقتصادی پابندی کا اعلان کیا۔ اس پابندی کو "1,000 Mark Sperre" کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق جرمنوں سے آسٹریا جانے کے لیے 1,000 مارک کسٹم فیس ادا کرنے کا تقاضا کیا جاتا تھا۔ اس نے آسٹریا کی سیر و سیاحت کی صنعت کو مفلوج کر کے رکھ دیا، جو جرمنوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی۔
نازی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے، آسٹریائی حکومت نے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے اور آسٹریا کی خودمختاری کے تحفظ کے کیلئے کام کیا۔ جون 1933 میں، ایک مہلک نازی بمباری کے ردعمل میں، ڈولفس حکومت نے آسٹریائی نازی جماعت اور اس کے الحاقیوں پر پابندی عائد کر دی۔ نازی تحریک آسٹریا میں غیر قانونی قرار دے دی گئی۔
لیکن آسٹریائی نازیوں نے ملک کے اندر غیر قانونی طور پر کام کرنا جاری رکھا۔ بہت سے لوگوں نے پابندی ختم کرنے کے طریقے تلاش کرنے میں خوشی محسوس کی۔ مزید برآں، ہزاروں آسٹریائی نازی سرحد پار جرمنی فرار ہو گئے۔ وہاں، انہوں نے ایک نیم فوجی یونٹ قائم کیا جسے آسٹرین لیجن (Österreichische Legion) کہا جاتا تھا۔ جرمن نازیوں نے اس لشکر کو عسکری تربیت فراہم کی۔ وہ آسٹرو۔جرمن سرحد کے پار ایک دہشت انگیز فوجی وجود بن گئے۔
آسٹریا میں ناکام نازی بغاوت، جولائی 1934
25 جولائی 1934 کو، آسٹریائی نازیوں نے آسٹریا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ ویانا ایس ایس کے اراکین نے آسٹریا کی چانسلری کا اختیار سنبھال لیا، جہاں کابینہ کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ اس عمل میں، سازشیوں نے چانسلر ڈولفس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ دیگر سازشیوں نے ویانا کے سرکاری ریڈیو سٹیشن پر قبضہ کر لیا اور عجلت سے کام لیتے ہوئے تختہ الٹنے کا اعلان کر دیا۔ ویانا سے باہر، آسٹریا کے دیگر نازیوں نے بھی حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔
تاہم، آسٹریا کی اکثریت حکومت کی وفادار رہی۔ آسٹریائی فوج اور پولیس نے سازشیوں کو جلد ہی شکست سے دوچار کیا۔ تختہ پلٹنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ اطالوی آمر بینیٹو مسولینی نے آسٹریا کی خودمختاری کے دفاع میں آسٹریا۔اطالوی سرحد پر فوجی دستے روانہ کیے۔ مسولینی، ڈولفس کے دوست اور اتحادی تھے اور تختہ الٹنے کی کوشش اور سیاسی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے شدید برہم تھے۔ آسٹریا اطالویوں اور جرمنوں کے مابین تنازعے کی ایک بڑی وجہ بن گیا۔
لہذا اب یہ واضح ہے کہ، غالباً جون 1934 میں کسی وقت، ہٹلر نے بغاوت کا حکم دیا تھا۔ ہٹلر کی جانب سے آسٹریائی نازی تحریک کے تعینات کردہ سربراہ، تھیوڈور ہابچٹ (Theodor Habicht) نے آسٹریائی نازیوں کے ساتھ مل کر شورش برپا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
جب بغاوت ناکام ہوئی، تو ہٹلر نے بغاوت میں ملوث ہونے کی تردید کی۔ نازی حکومت نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ یہ آسٹریائی نازی تحریک کی طرف انجام دیا گیا ایک سرکش منصوبہ تھا۔ سازش کے منفی نتیجہ نے یہ واضح کر دیا کہ نازیوں کو آسٹریا پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے انتظار سے کام لینا پڑے گا۔ وہ کامیاب نتیجہ کے بدلے میں معاملات کو زیادہ آہستگی سے اختیار کرنے کے لیے رضامند تھے۔
ڈولفس کی موت کے بعد، کرٹ وان شوچنیگ نے آسٹریا کے چانسلر اور آمر کی حیثیت سے عہدہ سنبھال لیا۔ اس نے اپنے پیشرو کی کئی آمرانہ پالیسیوں کو جاری رکھا۔ آسٹریا کی حکومت نے ہزاروں آسٹریائی نازیوں کو گرفتار کیا، جن میں بڑی تعداد میں سازشی بھی شامل تھے۔
آسٹریا کی سفارتی علیحدگی
ناکام بغاوت کے نتیجے میں، آسٹرو۔جرمن تعلقات بین الاقوامی تشویش کا باعث تھے۔ یہ خاص کر اٹلی کے مسولینی کے لیے سچ تھا، جس نے ابتدائی طور پر آسٹریا کو اٹلی اور نازی جرمنی کے درمیان ایک بفر یعنی غیرجانبدار ریاست کے طور پر سمجھا۔ لیکن فاشسٹ اٹلی اور نازی جرمنی 1935–1936 میں ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ مسولینی نے شوچنیگ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جرمنوں کے ساتھ تعاون کرے۔
1937–1938 کے موسم سرما تک، آسٹریا نے خود کو سفارتی طور پر تنہا پایا اور نازی جرمنی کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا سامنا کیا۔ بین الاقوامی برادری نے آسٹریا کی آزادی کو برقرار رکھنے میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی۔ اس وقت تک، فرانسیسی اور برطانوی دونوں نے آسٹرو۔جرمن یونین کو بحیثیت ناگزیر تسلیم کر لیا تھا۔ فروری 1934 میں ڈولفس حکومت کے آسٹریائی سماجی جمہوریت پسندوں پر وحشیانہ جبر و دباؤ کے سبب وہ برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک میں زیادہ دوست نہیں بنا سکے تھے۔ حتٰی کہ مسولینی بھی اب مزید آسٹریا کی آزادی کا قابل اعتماد ضامن نہ تھا۔
اختتام کا آغاز: برچٹسگیڈن (Berchtesgaden) معاہدہ، فروری 1938
12 فروری 1938 کو، آسٹریائی چانسلر شوچنیگ نے ہٹلر سے ملنے کے لیے سفر کیا۔ شوچنیگ آسٹریا اور جرمنی کے مابین کشیدگی پر بات چیت کرنے کی توقع رکھتا تھا۔ لیکن ہٹلر آسٹریا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تیار تھا۔ اس نے سلسلہ وار مطالبات کیے جن میں درج ذیل شامل تھے:
- آسٹریا کی خارجہ اور عسکری پالیسیوں کو جرمنی کے ساتھ مربوط کیا جانا تھا؛
- آسٹریائی نازی آرتھر سیز انکوارٹ کو پولیس اور سیکورٹی کے معاملات کا انچارج بنایا جانا تھا؛
- آسٹریائی نازیوں کو جنہیں آسٹریا کی حکومت نے قید کر رکھا تھا، انہیں معافی دی جانی تھی۔
ہٹلر نے شوچنیگ کو ڈرانے دھمکانے کے لیے کئی جرمن جرنیلوں کی موجودگی کو استعمال کیا۔ شوچنیگ نے ہار تسلیم کی اور معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدہ کا نام اس شہر کے نام پر رکھا گیا جہاں اس پر دستخط کیے گئے تھے، اس معاہدہ کو برچٹسگیڈن معاہدہ (Berchtesgaden Agreement) کہا جاتا ہے۔ آسٹریا کی خودمختاری اور آزادی کو اس معاہدے نے کافی ٹھیس پہنچائی۔
آسٹریا کی آزادی کا حق جتانے کی حتمی کوشش
9 مارچ کو، آسٹریائی چانسلر شوچنیگ نے آخری بار آسٹریا کی آزادی پر حق جتانے کی کوشش کی۔ اس نے استصواب رائے (ریفرنڈم) کا مطالبہ کیا۔ استصواب رائے اتوار، 13 مارچ 1938 کو ہونا طے کیا گیا تھا۔
ریفرنڈم میں ووٹرز سے کہا گیا کہ وہ آسٹریا کی آزادی کے لیے مندرجہ ذیل مطالبے کی تائید کریں یا اسے مسترد کریں:
"ایک آزاد اور جرمن، خودمختار اور سماج پسند، عیسائی اور متحدہ آسٹریا کے لیے! امن و امان اور کام کیلئے اور ان تمام لوگوں کی برابری کے لیے جو قوم اور وطن کا دعویٰ کرتے ہیں۔"
اگلے دن، ووٹرز کو آسٹریائی آزادی کی حمایت کرنے پر زور دیتا ہوا پروپیگنڈہ ہر جگہ دکھائی دیا۔ یہاں تک کہ سڑکوں اور پیدل چلنے کے راستوں پر بھی اسے پینٹ کیا گیا تھا۔ شوچنیگ نے امید کی کہ استصواب رائے بین الاقوامی برادری کو یہ دکھائے گا کہ آسٹریائی باشندے خودمختار رہنا چاہتے ہیں۔ اس نے پیشین گوئی کی کہ نتائج 65 فیصد آزادی کے حق میں اور 35 فیصد مخالفت میں ہوں گے۔
ہٹلر نے استصواب رائے پر برہمی کا اظہار کیا اور کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
ٹائم لائن: انشلس، 11–13 مارچ 1938
انشلس مارچ 1938 میں تین دنوں میں پیش آیا۔ اگرچہ آسٹریا کو نازیوں سے خطرہ کئی برسوں سے واضح تھا، لیکن لوگ پھر بھی حیران اور ششدر تھے۔
جمعہ، 11 مارچ 1938
11 مارچ کو، ہٹلر نے آسٹریا کی حکومت کو مندرجہ ذیل سلسلہ وار حتمی انتباہات دیے:
- چانسلر شوچنیگ کو استصواب رائے کو ترک کرنا ہوگا؛
- شوچنیگ کو چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دینا ہوگا؛
- آسٹریا کے صدر ولہیم میکلاس کو آسٹریائی نازی آرتھر سیس انکوارٹ کو آسٹریا کا نیا چانسلر تعینات کرنا ہوگا۔
اگر یہ مطالبات پورے نہ کیے گئے، تو جرمن فوج آسٹریا پر دھاوا بول دے گی۔ شوچنیگ نے شکست تسلیم کر لی۔ اسی شام، آسٹریا کے ریڈیو نے آسٹریا کی آزادی پر ہونے والے استصواب رائے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد، 7:47 پر، چانسلر شوچنیگ نے ایک ریڈیو خطاب کیا جو پورے آسٹریا میں نشر کیا گیا۔ اس نے جرمن دباؤ کے پیشِ نظر مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ شوچنیگ نے آسٹریائی عوام اور آسٹریائی فوج کو ہدایت کی کہ اگر جرمن فوجی دستے ان پر حملہ کریں تو ان کے خلاف مزاحمت نہ کریں۔ وہ آسٹریا کی آزادی کے لیے جنگ لڑنے یا خون بہانے کو رضامند نہ تھا۔
شوچنیگ کے مستعفی ہونے کے چند ہی منٹوں بعد سڑکوں پر سواستیکا بازو کی پٹیاں اور پرچم ہر طرف دکھائی دینے لگے۔ آسٹریائی نازیوں کو اب کسی ردعمل کے خوف کے بغیر اپنے سیاسی مخالفین اور یہودیوں پر حملہ کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ انہوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ جما لیا اور ٹارچ لائٹ پریڈز، نعروں کے ساتھ گلیوں میں چھا گئے اور ہٹلر کو سیلوٹ پیش کرنے لگے۔
آسٹریائی نازیوں نے کوئی ایک بھی گولی چلائے بغیر ملک پر قبضہ کر لیا۔
خوف زدہ یہودیوں، بائیں بازو کے حامی افراد اور شوچنیگ کے حامیوں نے آسٹریا سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ وہ ملک کی سرحدوں کی طرف بھاگنے لگے، اس امید کے ساتھ کہ وہ سرحدیں بند ہونے سے پہلے وہاں پہنچ جائیں گے۔ کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، لیکن بیشتر تیزی سے نازی بننے والے آسٹریا میں پھنس گئے۔ شوچنیگ ویانا میں ہی رہا، جہاں اسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
ہفتہ، 12 مارچ 1938
12 مارچ کو آدھی رات ہوتے ہی، آسٹریا کے صدر ولہیم میکلاس نے ہٹلر کے آخری مطالبات کو ہچکچاتے ہوئے تسلیم کر لیا۔ اس نے سیس-انکوارٹ کو آسٹریا کا چانسلر تعینات کیا۔ بدلے میں، سیس-انکوارٹ نے آسٹریائی نازیوں سے بھری ہوئی ایک نئی کابینہ کا اعلان کیا۔ یہ اقتدار کی ایک اندرونی تبدیلی تھی جو نازی جرمنی کے بیرونی دباؤ سے لائی گئی تھی۔ لیکن ہٹلر کے لیے یہ کافی نہ تھا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ آسٹریائی باشندوں نے ہٹلر کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جرمن فوجیوں نے صبح تقریباً 5 بجے سرحد عبور کی۔ ان کا سامنا مسلح مزاحمت سے نہیں بلکہ حوصلہ افزائی اور پھولوں سے ہوا۔ آسٹریائی باشندوں نے ہٹلر کا پرتپاک استقبال کیا جب اس نے پہلے لنز اور پھر ویانا کا دورہ کیا تھا۔
اتوار، 13 مارچ 1938
13 مارچ کو، آسٹریائی نازی چانسلر سیس انکوارٹ نے ایک قانون پر دستخط کیے جسے "آسٹریا کا جرمنی کے ساتھ اتحاد نو" ("Wiedervereinigung Österreichs mit dem Deutschen Reich") کہا گیا۔
لفظ "اتحاد نو" ایک غلط نام تھا۔ آسٹریا کبھی بھی جرمن سلطنت کا حصہ نہیں رہا تھا۔ اس قانون نے، جسے بعض اوقات انشلس قانون کہا جاتا ہے، آسٹریا کو نازی جرمنی میں باضابطہ طور پر شامل کر دیا تھا۔ اس نے انشلس کو ایک قانونی حیثیت دی۔
آسٹریا اب ایک خودمختار ملک نہ تھا۔ اب یہ نازی جرمنی کا ایک صوبہ (سرزمین) تھا۔ نازی آسٹریا کی الگ شناخت کی کسی بھی بقیہ نشانی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ نازی جرمنی میں، آسٹریا کو ابتدا میں ایک نئے نام اوسٹ مارک (Ostmark) سے پکارا گیا۔ جرمن زبان میں، آسٹریا کو Österreich کہا جاتا تھا (اور کہا جاتا ہے) جس کا مطلب ہے "مشرقی سلطنت"۔ نام بدل کر نازیوں نے آسٹریا کو سلطنت سے صوبہ بنا دیا۔ مابعد کی انتظامی تنظیم نو کے نتیجے میں مزید نام اور سرحدی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ 1942 میں، نازی حکومت نے باضابطہ طور پر اس علاقے کو الپائن اور ڈینوبیئن ڈسٹرکٹس (Alpen- und Donau-Reichsgaue) کہا۔
اس قانون نے نازی جرمنی کے ساتھ آسٹریا کے اتحاد کے معاملے پر ایک نئے استصواب رائے کو لازمی قرار دیا۔ اس نئے استصواب رائے کی تاریخ 10 اپریل مقرر کی گئی تھی۔
انشلس کے دوران سام مخالف تشدد
آسٹریا کے تقریباً 200,000 یہودیوں کے لیے، انشلس کو ایک دہشت ناک نازک دور قرار دیا گیا۔
11 مارچ کی رات سے شروع ہو کر اس کے بعد کے ہفتوں میں ملک بھر میں قتل و غارت جیسے تشدد کا آغاز ہوگیا۔ آسٹریائی نازیوں اور دیگر نے یہودیوں کو زدوکوب کیا، ان پر حملہ کیا اور ان کی تذلیل کی۔ انہوں نے یہودیوں کو عوامی بیت الخلاء صاف کرنے اور ذلت آمیز کام کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے خاص کر مذہبی یہودیوں کو نشانہ بنایا۔ نام نہاد "سکربنگ جماعتیںReibpartien") "( سب سے زیادہ بدنام تھیں۔ نازیوں نے ویانا کے یہودیوں کو شہر کے گلی کوچوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنے پر مجبور کیا جبکہ تضحیک کرنے والے ہجوم ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ خاص طور پر، انہوں نے انہیں شوچنیگ کے منسوخ شدہ استصواب رائے کے وقت کے آزادی کے حق میں درج سیاسی نعروں کو ہٹانے پر مجبور کیا۔
جلد ہی، آسٹریا کے یہودیوں کو ان قوانین اور پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا جو نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے آسٹریا چھوڑنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ویانا شہر کے قونصل خانوں پر قطاریں لگی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔
نازی پروپیگنڈہ اور انشلس
نازیوں نے جرمن عوام کی تقدیر کی تکمیل ہونے کے طور پر انشلس کی خوشی منائی۔ وہ تقاریر اور پروپیگنڈا کے واقعات میں اس کا ذکر کرتے تھے۔
ان میں سب سے مشہور واقعہ 15 مارچ کو ہوا، جب ہٹلر نے ویانا کے مرکز میں واقع ایک بڑے چوراہے، ویانا کے ہیلڈن پلاٹز میں ایک بہت بڑے ہجوم سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں، اس نے نازی جرمنی کے آسٹریا کے ساتھ الحاق کا جشن منایا۔ ہجوم کی فلمی فوٹیج اور تصاویر جرمن تصویری خبرناموں اور اخبارات میں شائع کی گئیں۔ ان کا مقصد انشلس کے لیے آسٹریائی جوش و خروش کو ظاہر کرنا اور اس طرح کسی دوسرے ملک کے غیر قانونی قبضے کو درست ثابت کرنا تھا۔ جب ہٹلر برلن واپس آیا تو ایک ہیرو کی حیثیت سے اس کا استقبال کیا گیا تھا۔
10 اپریل کو استصواب رائے ایک اور پروپیگنڈہ کا موقع تھا۔ ووٹ کی حمایت میں نازی پروپیگنڈہ جارحیت نے آسٹریا کے مختلف اداروں اور سربراہان کو اپنے ساتھ ملایا اور متحرک کیا۔ ان میں ان دو طبقوں کے نمائندے شامل تھے جو نازی تحریک کو قبول کرنے سے گریزاں تھے: آسٹریا کا محنت کش طبقہ اور کیتھولک چرچ۔ ریفرنڈم کے نتائج سے ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ لگ بھگ 99 فیصد آسٹریائی عوام نازی جرمنی کے ساتھ متحد ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم، 300,000 سے 400,000 کے درمیان آسٹریائی شہریوں کو ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ خارج کیے گئے گروہوں میں آسٹریائی یہودی، روما اور نازیوں کے سیاسی مخالفین بھی شامل تھے۔
آسٹریا میں انشلس کو قبول کرنا
متعدد آسٹریائی باشندوں نے اپنے ملک کی نازی سازی کی انجام دہی میں مدد کی۔ آسٹریا کے سرکاری ملازمین، فوجیوں اور پولیس افسران نے ایڈولف ہٹلر کے سامنے ایک نیا حلف اٹھایا۔ ایسا انہوں نے عوامی تقریبات میں، اکثر پریڈز کے ہمراہ کیا۔ متعدد تنظیموں اور اداروں نے نازی نظریات کو اپنایا اور نازی پالیسیوں کو نافذ کیا۔ بہت سے لوگوں نے اپنے یہودی اراکین کو نکال باہر کیا اور اپنے یہودی ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دیا۔
کمیونسٹس اور سماجی جمہوریت پسند، سیاسی گروپ جو نازیوں کے خلاف مزاحمت کر سکتے تھے، انہیں ڈولفس۔شوشنگ حکومت نے پہلے ہی کچل دیا تھا۔ ان تحریکوں کے بہت سے اراکین پہلے ہی جلاوطنی میں رہ رہے تھے۔ وہ نازی مخالفین جو آسٹریا میں موجود رہے انہیں نازی ایس ایس اور پولیس نظام کے بھرپور غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ نازیوں نے سیاسی مخالفین کا شکار کرنے کے لیے آسٹریا میں گسٹاپو دفاتر تیزی سے قائم کیے۔
ہٹلر کے یورپ پر غلبہ حاصل کرنے میں، انشلس بطور ایک پہلا قدم
انشلس، نازی حکومت کی علاقائی جارحیت اور توسیع کی پہلی کارروائی تھی۔ یہ نازی جرمنی کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تاریخی لمحہ تھا۔ بین الاقوامی برادری نے انشلس کو روکنے کی کوشش کرنے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی۔ اور نہ ہی انہوں نے نازی جرمنی کو بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی پر سزا کا مرتکب ٹھہرایا۔ چنانچہ، انشلس عالمی برادری کی جانب سے ایڈولف ہٹلر کی جارحانہ خارجہ پالیسی سے مفاہمت کی ابتدائی اور اہم ترین مثالوں میں سے ایک ہے۔
آسٹریا کے جرمن الحاق نے بعد از جنگِ عظیم اول کے بین الاقوامی حکم کی ایک اہم خلاف ورزی کی نشاندہی کی۔ محض چھ ماہ بعد، نازی جرمنی نے چیکوسلواکیہ کے ایک خطے، سوڈیٹن لینڈ میں بحران پیدا کیا۔ ستمبر 1938 میں، اٹلی، فرانس اور برطانیہ سے عالمی سربراہان نے اس مسئلے پر گفت و شنید کرنے کے لیے میونخ میں ہٹلر سے ملاقات کی۔ انہوں نے خطے کو نازی جرمنی کو سپرد کر کے ہٹلر کو مطمئن کیا۔ انہوں نے ایسا اس شرط پر کیا کہ باقی چیکوسلواکیہ ان حدود میں شامل نہ ہوگا۔
مارچ 1939 میں، نازی جرمنی نے اس معاہدہ کو توڑ دیا اور پراگ سمیت چیک علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اور، ستمبر 1939 میں، نازی جرمنی نے پولینڈ پر چڑھائی کر دی، جو کہ علاقائی جارحیت اور توسیع کی ایک کارروائی تھی جس سے جنگِ عظیم دوم کا آغاز ہو گیا۔
فٹ نوٹس
-
Footnote reference1.
آسٹرو۔ہنگری سلطنت کو (شاہی خاندان کے بعد) ہیبسبرگ سلطنت کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ اس نے آج کے آسٹریا کی سرحدوں کے پار کے خطے پر بھی حکومت کی۔ یہ سلطنت لاکھوں جرمنوں کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں کا بھی گھر تھی، جن میں کروٹس، چیک باشندے، ہنگیریئنز، اطالوی، پولس، سلوواک، سلووینز، یوکرینی اور متعدد دیگر قوموں کے باشندے شامل تھے۔