جیکب فرینکیل
پیدا ہوا: 3 دسمبر، 1929
گیبن, پولینڈ
جیکب ایک مذہبی یہودی خاندان کے سات بیٹوں میں سے ایک تھے۔ وہ وارسا سے 50 میل دور گیبن نامی ایک شہر میں رہتے تھے، جہاں جیکب کے والد ٹوپیاں بنانے کا کام کرتے تھے۔ گیبن میں پولینڈ کی ایک پرانی عبادت گاہ تھی جسے 1710 میں تعمیر کیا گيا تھا اور جو لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ گیبن کے زيادہ تر یہودیوں کی طرح جیکب کے گھر والے بھی عبادت گاہ کے قریب ہی رہتے تھے۔ نو افراد پر مشتمل یہ خاندان ایک تین منزلہ عمارت کی تیسری منزل پر ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتا تھا۔
1933-39: یکم ستمبر سن 1939 کو میری دسویں سالگرہ سے چند ماہ پہلے جرمنی کی پولینڈ کے ساتھ جنگ شروع ہوئی۔ ہمارے شہر پہنچنے کے بعد انہوں نے عبادت گاہیں اور ان کے آس پاس کے گھروں پر تیل چھڑک کر انہيں آگ لگا دی۔ تمام یہودی مردوں کو بازار میں جمع کیا گیا اور انہيں وہاں پکڑ کر رکھا جبکہ ہماری عبادت گاہ اور گھر جل کر راکھ ہو رہے تھے۔ ہمارے گھر پر بھی تیل چھڑکا گیا تھا لیکن اس کو آگ نہيں لگی۔
1940-45: جب میں بارہ سال کا تھا، مجھے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ مزدوری کے ایک کیمپ بھیج دیا گیا۔ ایک سال سے زيادہ کے بعد، ہمیں آشوٹز بھیج دیا گیا۔ ہمارے پہنچنے کے اگلے دن میرے بھائی چیم کو اور مجھے بچے اور بوڑھوں کے ساتھ ایک قطار میں کھڑا کر دیا گیا۔ میں نے ایک قیدی سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ اس نے بھٹی کی طرف اشارہ کیا "کل اس کا دھواں تم سے جلایا جائے گا۔" اس نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم اپنے بازوؤں پر ایک نمبر ٹیٹو کروا لیں تو ہمیں مارنے کے بجائے کام پر لگا دیا جائے گا۔ ہم چوری چھپے لیٹرین میں گئے۔ پھر پیچھے کے دروازے سے فرار ہو کر ٹیٹو لگوانے آدمیوں کی قطار میں جا کھڑے ہوئے۔
آشوٹز میں سترہ مہینے گزارنے کے بعد جیکب کو زبردستی مارچ کروا کر جرمنی میں کیمپوں میں بھیجا گیا۔ اُنہیں آسٹریا کے قریب اپریل سن 1945 میں آزاد کر دیا گیا اور وہ سولہ سال کی عمر میں امریکہ جا کر بس گئے۔