بولیسلو اور اُن کی بڑی بہن کی پرورش وارسا یہودی بستی میں ہوئی۔ جرمنی نے وارسا پر ستمبر 1939 میں حملہ کیا۔ بولیسلو کے والد اپنے بیمار رشتہ داروں کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ لہذا بولیسلو اور اُن کی بہن سوویت سرحد کی طرف جانے والی ایک ریل گاڑی پر سوار ہوگئے۔ جرمنی نے 1941 میں سوویت علاقوں پر حملہ کر دیا اور 1942 میں بولیسلو کو ایک جبری مشقت کے کمیپ میں قید کردیا گيا۔ اُنہیں تھیریسین شٹٹ کیمپ میں بھجوا دیا گیا جہاں سوویت فوجوں نے اُنہیں 1945 میں آزاد کرا لیا۔
جب ہم کام سے واپس لوٹتے تو شام کے کھانے سے پہلے ہمیں لوگوں کو پھانسی دئے جانے کے منظر دیکھنے کو ملتے۔ ان کے پاس بجلی کے تاروں کے دو یا تین سیٹ ہوتے تھے۔ جن لوگوں کو پھانسی دی جانی ہوتی وہ اُن کو ان تاروں کے درمیان رکھتے۔ یوں وہ لوگ دو تین روز تک بغیر کھائے پیئے اسی حالت میں پڑے رہتے۔ اُن کا پیشاب نھی وہیں خطا ہوتا رہتا۔ وہ اُنہیں اس وقت لاتے جب ہم کام سے واپس لوٹتے۔ وہ ایک میز اور کرسی رکھتے اور اُن کو وہاں پھانسی دیتے۔ وہ کوئی مزاحیہ عبارت پڑھتے اور کرسی کو لات مار کر ہٹا دیتے۔ اُن میں سے ایک کو تو لٹکانے سے پہلے ہی گولی مار دی گئی۔ ہوا یوں کہ وہ لوگ اس کو لٹکا رہے تھے کہ اس نے چلانا شروع کیا "تم قاتل لوگ ہو۔ ہار تمہارا مقدر بنے گی۔ ہٹلر مرنے والا ہے۔ " وغیرہ۔ اور وہ شخص فوراً ہی یوں ختم [بندوق کی آواز نکالتے ہوئے] اور پھر ان لوگوں نے اس کو اِس حالت میں بھی پھانسی دے دی۔ ہم یہ منظر دیکھ کر اس قدر ٹھنڈے ہو جاتے کہ ہمیں کسی بھی چیز کا کوئی احساس ہی نہ رہتا۔ مرے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھنا، پھانسی دئے جانے والے لوگوں کی طرف دیکھنا۔۔۔ جیسے آپ کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔ اس طرح کے مناظر دیکھنے کے بعد آپ کے تاثرات کیا ہوتے ہیں اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ آپ جانتے ہیں۔ لیکن کسی وجہ سے آپ دوبارہ نارمل ہو جاتے ہیں۔ آپ کسی شخص کو کسی کار کے حادثے وغیرہ میں دیکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ اپنی نارمل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.