فرانز اور اُن کا خاندان یہوواز وھٹنس کے پیروکار تھے۔ جرمنی نے 1938 میں آسٹریہ پر قبضہ کر لیا۔ جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو فرانز کے والد کو پھانسی دے دی گئی کیونکہ یہوواز وھٹنس کے پیروکار کی حیثیت سے اُنہوں نے جنگ کی مخالفت کی۔ 1940 میں فرانز نے فوجی تربیت میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور نازی جھنڈے کو سلامی نہیں دی۔ لہذا اُنہیں قید کردیا گیا۔ گسٹاپو (جرمن خفیہ اسٹیٹ پولیس) نے گراز میں اُن سے پوچھ گچھ کی اور اُنہیں جرمنی کے ایک کیمپ میں پانچ سال تک جبری مشقت پر معمور کر دیا گیا۔ امریکی افواج نے فرانز کو 1945 میں آزاد کرا لیا۔
پہلی چیز یہ تھی کہ اُنہوں نے میرے والد کو پولینڈ کی جنگ شروع ہونے سے پہلے 1939 میں رجسٹریشن کے لئے بلایا۔ اس کمیشن میں ان لوگوں نے کہا کہ یہ پوری طرح واضح ہے کہ میرے والد معذور تھے جس کی جزوی وجہ پہلی جنگ عظیم تھی۔ اُنہیں جوڑوں کے درد کی شدید تکلیف تھی۔ وہ اپنے تمام دانتوں سے محروم ہو چکے تھے۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں اکیلے چھوڑ دینا چاہیئے اور واپس بھیج دینا چاہیئے کیونکہ اُنہیں پہلی جنگ عظیم سے ہی کافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ پھر کچھ جرمن افسروں نے اُن سے سوال جواب کئے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہوواز وھٹنس کا پیروکار ہونے کی حٰثیت سے جنگ میں خدمات انجام دینا اُن کے ضمیر کے خلاف ہو گا۔ اگرچہ وہ جنگی خدمت کے لئے نااہل ہو چکے تھے، اُنہوں نے اُنہیں وہاں روکے رکھا۔ اُنہیں فوجی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اُنہیں ویانا فوجی جیل سے برلن منتقل کئے جانے کیلئے تین مہینے تک انتظار کرنا پڑا۔ وہاں اُنہیں ریخسکرائگزگیرخٹ فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گيا جہاں اُنہیں یہوواز وھٹنس کے تقریباً 28 دوسرے پیروکاروں کے ساتھ سزائے موت دی گئی۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.