جرمنوں نے مئی 1940 میں ھالینڈ پر حملہ کر دیا۔ تقریباً ایک برس بعد ھیٹی اور دوسرے یہودی بچے باقاعدہ اسکولوں میں حاضری دینے کے اہل نہ رہے۔ جرمنوں نے 1942 میں اُن کے والد کے کاروبار کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ھیٹی کے والد نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اُن کا خاندان سیفارڈک ہے۔ اِس لئے 1943 میں کئے گئے راؤنڈ اپ (یہودیوں کی پکڑ دھکڑ) سے اُنہیں مستثنٰی قرار دیا جائے۔ ھیٹی کے والد نے فیصلہ کیا کہ اُن کے خاندان کو ایمسٹرڈیم چھوڑ دینا چاہئیے اور ھیٹی جنوبی ھالینڈ میں ایک خاندان کے ساتھ چُھپی رہیں۔ ھیٹی اور اُن کے والدین جان بچانے میں کامیاب رہے۔
لوگوں کیلئے یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ اپنا گھر بار اور اپنے والدین کو چھوڑنا کس قدر مشکل ہے اور خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ یہ امکان بھی ہو کہ آپ کبھی اپنے والدین کو دوبارہ نہیں دیکھ پائیں گے۔ پھر اپنی ہر قیمتی اور من پسند چیز پیچھے چھوڑ دینا ۔۔۔ گھر سے خالی ہاتھ نکلتے ہوئے پیچھے کا دروازہ بند کرنا ۔۔۔ اِس کی وضاحت کرنا ۔۔۔ مشکل ہے کہ یہ سب کس حد تک دشوار اور تکلیف دہ تھا اور اب جبکہ میرے اپنے بچے ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ میرے والدین نے یہ سب کیسے کیا ہو گا۔ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے خاص طور پر جب یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ میرے والدین نہیں جانتے تھے کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ اُن کا اُس شخص سے رابطہ تھا جس کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اُس نے 250 یہودی بچوں کو بچایا تھا اور جو خود برجن بیلسن میں ختم ہو گیا۔ جنگ کے اختتام پر وہ پکڑا گیا اور اُس نے خود کو ختم کر دیا۔ وہ یہودی نہیں تھا لیکن اُس کے ساتھ یہودیوں کی طرح کا سلوک اِس لئے کیا گیا کیونکہ اُس نے یہودیوں کی مدد کی تھی۔ اُس شخص نے ملک کے دوسرے حصے میں میرے لئے جگہ تلاش کی اور میرے والدین کو اُس خاتون کی تصویر دکھائی جو اگلی صبح مجھے لینے آنے والی تھیں۔ مجھے اپنے کپڑوں سے تمام ستارے اتارنا پڑے اور پھر میرا لباس انتہائی غیر معیاری اور ناقص زرد رنگ کا تھا۔ آپ اِس کو کسی بھی قسم کی کوالٹی نہیں کہ سکتے تھے۔ مجھے بہت محتاط رہنا تھا کہ لوگ میرے کپڑوں پر یا کوٹ پر کوئی نشان نہ دیکھ پائیں۔ میں اگلے روز صبح سویرے گھر سے نکل گئی۔ میں انتہائی خوفزدہ تھی کہ میرے ہمسائے مجھے گھر سے نکلتے نہ دیکھ لیں۔ میں نہیں جانتی کہ کس طرح ٹرام تک پہنچی کیونکہ ہم نے ریلوے سٹیشن جانے کیلئے ٹرام کا سفر کیا تھا۔ اُس عورت نے اسٹیشن پر مجھے ایک نوجوان کے سپرد کر دیا جو اپنی عمر کی دوسری دہائی کے اوائل میں تھا۔ اِس نوجوان کے ساتھ ایک نوعمر لڑکا بھی تھا۔ شاید اُس کی عمر دس گیارہ برس ہو گی۔ ہم دونوں ٹرین پر سوار ہو گئے۔ یہ زبردست بات تھی۔ پھر یہ بہت خوفزدہ کرنے کا معاملہ بھی تھا کیونکہ میرا کوئی نام نہ تھا۔ میرے پاس شناخت کیلئے کوئی کاغذات نہ تھے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میں کون ہوں۔ مجھے اُس شخص کا پتہ نہیں تھا جس کے ساتھ میں جا رہی تھی۔ جو بچہ میرے ساتھ تھا میں اُس کو بھی نہیں جانتی تھی ۔۔۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.