جرمنی نے 1939 میں پولینڈ پر حملہ کیا۔ مکاؤ پر قبضہ ہونے کے بعد سام بھاگ کرسوویت علاقے میں چلے گئے۔ وہ اپنی ضرورت کی اشیاء حاصل کرنے کیلئے مکاؤ واپس آئے مگر اُنہیں گھیٹو یعنی یہودی بستی میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ 1942 میں اُنہیں آشوٹز بھجوا دیا گیا۔ جب 1944 میں سوویت فوجوں نے پیش قدمی کی تو سام اور دوسرے قیدیوں کو جرمنی کے کیمپوں میں بھیج دیا گيا۔ اِن قیدیوں کو 1945 میں موت کے مارچ پر روانہ کر دیا گیا۔ سام کو امریکی فوجیوں نے اُس وقت آزاد کرا لیا جب وہ بمباری کے دوران وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
گیس چیمبر بھی اسی طرح کا ایک ہال تھا جس میں ٹیوب کی طرح کے دو راستے تھے جیسے کوئی چمنی اوپر کی طرف جاتی ہے۔ اِن دھاتی ٹیوبوں میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔ اس کے چاروں کونوں میں تمام گولائی پر تقریباً ایک چوتھائی انچ چوڑے سوراخ تھے اور یہ ٹیوبیں دھات کی دو یا تین تہوں پر مشتمل تھیں جو اِن سوراخوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑی گئی تھیں۔ چمنیوں کی یہ ٹیوبیں اوپر چھت تک جاتی تھیں جو باہر کی زمینی سطح کے برابر تھیں۔ یہ وہ جگہ ہوتی جہاں بنکر کو بھرتے وقت ایس ایس کے لوگ کھڑے ہوتے تھے۔ جب وہ اس بنکر میں عورتوں کو بھر لیتے پھر وہ ان میں مردوں کو بھرتے۔ بعض اوقات ان کے پاس مزید 20 یا 30 لوگ ہوتے جنھیں وہ اندر داخل نہیں کرپاتے تھے۔ لہذا وہ ہمیشہ بچوں کو بعد میں ڈالنے کے لئے روک لیتے۔ جب وہ زمین دوز کمرا اتنا زیادہ بھر جاتا کہ وہ مزید لوگوں کو نہیں ڈال سکتے تو وہ بچوں کو انکے سروں کے اوپر لٹا دیتے اور اُن کو مسلسل دباتے رہتے تاکہ وہ اندر پورے طور پر داخل ہو سکیں۔ اس کے بعد لوہے کا دروازہ بند کردیا جاتا تھا جو کہ تقریبا چھ انچ موٹا ہوتا تھا۔ میں نے خود اس طرح کا دروازہ بنایا ہے لہذا مجھے معلوم ہے کہ وہ کیسا تھا۔ دروازے پر تین بولٹ ہوتے تھے اور تین لوہے کے سلاخیں لگی ہوتی تھیں جو ایک دوسرے کو کراس کرتی تھیں۔ سلاخیں ایک دوسرے میں پیوست کر کے اُنہیں پیچوں کے ساتھ کس کے بند کر دیا جاتا تھا۔ ایس ایس کے لوگ ریڈ کراس گاڑی کے پاس باہر کھڑے ہوتے تھے۔ انکے پاس ٹرک ایمبولنس میں گیس کے کنستر ہوتے تھے۔ وہ ایک ماسک پہنتا، گیس کا ڈھکن کھولتا اور پھر اس کو چمنی کے راستے گیس چیمبر میں پھینک دیتا۔ لاش بھٹی نمبر دو اور تین میں دو گیس کی ٹیوبیں تھیں۔ جیسے ہی وہ گیس کو اندر ڈالتا، ڈھکن کو تیزی سے بند کردیتا تاکہ گیس باہر نہ نکل پائے۔ آپ صرف ایک تیز آواز سن سکتے تھے "شیما ۔۔۔" [یہودی عقیدے کا اظہار] اور صرف یہی آواز آتی تھی۔ یہ مرحلہ تقریبا پانچ سے دس منٹ لیتا تھا۔ لوہے کے اس دروازے پر چار یا پانچ تہوں والا شیشہ لگا ہوتا تھا جس میں ایک چھوٹا جھانکنے والا سوراخ ہوتا تھا۔ اس سوراخ پر سلاخیں موجود ہوتی تھیں تاکہ کوئی شیشوں کو توڑ نہ پائے۔ جب وہ اس زمین دوز کمروں کی بتی روشن کرتے تو یہ دیکھ سکتے تھے کہ لوگ مر چکے ہیں یا نہیں۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.