سارہ یدش زبان بولنے والے مذہبی یہودی والدین کے ہاں ہیدا ہونے والے سات بچوں میں سے ایک تھی۔ اس کا خاندان سوکولو پوڈلاسکی میں رہتا تھا جو پولینڈ کے وسط میں ایک صنعتی قصبہ تھا جس میں 5،000 یہودیوں کی بڑی آبادی موجود تھی۔ سارہ کے والدین کا اناج کا کاروبار تھا۔ 1930 میں سارہ نے سوکولو پوڈلاسکی میں سرکاری ایلیمنٹری اسکول جانا شروع کیا۔
1933-39: سن 1937 میں 14 برس کی عمر میں سارہ نے مڈل اسکول ختم کیا اور خاندانی کاروبار میں اپنی بیوہ والدہ کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔ دو سال بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ جرمن کے جنگی ہوائی جہازوں نے سوکولو پوڈلاسکی کی منڈی اور دیگر شہری مقامات پر بمباری کی۔ 20 ستمبر کو جرمن فوجیں قصبے میں داخل ہو گئیں اور تین دن بعد انہوں نے مرکزی معبد کو نذر آتش کر دیا۔ پھر جرمنوں نے خاندانی کاروبار پر بھی قبضہ کر لیا۔
1940-42: اگلے دو سالوں کے دوران جرمنوں نے یہودیوں پر بہت سی پابندیاں عائد کیں اور بالاخر ان کو اپنے کپڑوں پر ایک شناختی یہودی ستارہ پہنے کا حکم دیا۔ 20 ستمبر 1941 کو جرمنوں نے ایک یہودی بستی قائم کی اور قصبے کے یہودیوں کو وہاں اکھٹا کیا۔ تقریباً ایک سال بعد یہودی مذہب کی سب سے اہم تعطیل، گناہوں کیلئے معافی مانگنے کے دن پر جرمنوں نے یہودی بستی میں موجود لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی۔ جنہوں نے مزاحمت کی یا چھپنے کی کوشش کی، اُنہیں گولی مار دی گئی۔ سارہ، اس کی والدہ اور چھوٹے بھائی کو ٹرین کی ایک بند گاڑی میں ڈالا گیا۔
22 ستمبر 1942 کو سارہ اور اس کے خاندان کو ٹریبلنکا کے حراسستی کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ وہاں پہچنے کے تھوڑی دیر بعد اس کو گیس کے ذریعہ ہلاک کر دیا گیا۔ وہ اُس وقت 19 سال کی تھی۔
آئٹم دیکھیںفریمٹ، یدش زبان بولنے والے مذہی یہودی خاندان میں پیدا ہونے والے آٹھ بچوں میں سے ایک تھی۔ برسزٹین خاندان اسی یہودی محلے کے وسط میں رہتا تھا جہاں فریمٹ کے والد ذیمین حوفا اسٹریٹ پر واقع ایک بیکری کے مالک تھے۔ 1920 میں برسزٹین خاندان اسی محلے کے 47 میلا روڈ پر واقع دو کمروں کے آرام دہ اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا۔ فریمٹ نے وارسا کے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔
1933-39: 1939 تک میرے چھ بہن بھائیوں نے دیگر رہائش گاہیں اختیار کر لی تھیں۔ صرف میں اور میرا چھوٹا بھائی گھر میں رہ گئے تھے اور ہم اپنے والدین کی انتہائی توجہ اور پیار سے لطف اٹھا رہے تھے۔ میں نے اسکول ختم کر لیا تھا اور میری بہت سی سہیلیاں تھیں۔ میرے والد نے اپنا کاروبار چھوڑ دیا تھا اور وراسا کی عمدہ کاگن بیکری میں کام کر رہے تھے۔ ہم ستمبر 1939 میں جرمن حملے کیلئے بلکل تیار نہیں تھے۔ 28 ستمبر کو ہمارے شہر نے ہتھیار ڈال دئے۔
1940-44: ہمارا اپارٹمنٹ وارسا یہودی بستی کے وسط میں واقع تھا جس کو نومبر 1940 میں جرمنوں نے علیحدہ کر دیا تھا۔ مجھے یکم مئی 1943 کو مجدانیک حراستی کیمپ میں جلاوطن کر دیا گيا۔ وہاں لاشوں کی بھٹیوں سے نکلا ہوا دھواں آسمان پر بادلوں کی طرح قیدیوں پر چھایا رہتا۔ ہر روز میں اور میرے ساتھ دوسری پانچ خواتین کو کھاد سے بھری بھاری گاڑی کو کیمپ کے ارد گرد واقع زمینوں کے آرپار دھکے دے کر لے جانا پڑتا تھا جس کی وجہ سے میری انگلیاں ٹوٹ کر بدصورت ہو گئيں۔ اگر ہم بہت آہستہ کام کرتے تو ہمیں ایک لمبے چمڑے سے بنے ہوئے چابک سے کوڑے مارے جاتے تھے۔ ہم اپنے ننگے ہاتوں سے ان زمینوں میں کھاد ڈالتے تھے۔
اگلے دو سالوں کے دوران فریمٹ کو سات نازی کیمپوں میں جلاوطن کیا گیا۔ 27 اپریل 1945 کو اسے ترخائم مزدور کیمپ میں آزاد کرا لیا گیا۔ 1949 میں وہ ہجرت کر کے امریکہ چلی گئی۔
آئٹم دیکھیںسیلما، وجنبرگ کے چار بچوں میں سب سے چھوٹی اور اکلوتی بیٹی تھی۔ جب اس کی عمر 7 برس تھی تو اس کے گھر والوں نے زوولے (نیدرلینڈ میں) کے قصبے میں کاروبار کرنے کے لئے گروننگن چھوڑ دیا۔ وہاں اس کے والدین نے ایک چھوٹا ہوٹل چلایا جو اس علاقے میں کاروبار کے باعث سفر کرنے والے یہودی بزنس مینوں میں مقبول و معروف تھا۔ ہر جمعہ بھیڑ بکریوں کا بازار لگتا تھا اور کئی تاجر کاروبار کے سلسلے میں یا صرف کافی پینے کیلئے وجنبرگ کے ہوٹل میں آيا کرتے تھے۔
1933-39: گھر میں ہم یہودی عقائد کی اطاعت کرتے تھے کیونکہ میری والدہ مذہبی تھیں۔ ہمارا ہوٹل کھانے پینے کی چیزوں کے بارے میں یہودی قوانین کی پابندی کرتا تھا۔ جمعہ کی شام کو عبادت کے بعد ہم گھر میں جمع ہو کر عبرانی زبان میں گیت گاتے تھے۔ ہم ہر بفتے کو یہودی عبادت گاہ جایا کرتے تھے اور گھر لوٹنے پر ایک شاندار کھانا کھاتے تھے۔ میں صیہونی سرگرمیوں میں بہت سرگرم تھی اور ہر موسم گرما میں صیہونی کیمپوں میں شرکت کرتی تھی۔
1940-44: مئی 1940 میں جرمنوں نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا تھا۔ سن 1943 میں مجھے جلاوطن کر کے سوبی بور کے موت کے کیمپ میں بھیج دیا گيا جہاں مجھے اور چند اور لوگوں کو کام کروانے کی غرض سے زندہ رکھا گیا۔ سوبی بور میں پہلے دن کے ڈھلنے پر حاضری کیلئے ہم کیمپ نمبر ایک کے کھلے میدان میں جمع ہوئے۔ کیمپ نمبر تین سے آگ نکل رہی تھی۔ جلتے انسانی گوشت کی بساند بہت شدید تھی۔ کسی نے مجھ سے پوچھا "جانتی ہو اس آگ کا کیا مطلب ہے؟" میں نے سر ہلایا۔ اس نے تشریح کی کہ یہ ہماری سواری کی چتا تھی۔ پھر جرمنوں نے ہمیں جوڑیوں میں ناچنے کا حکم دیا اور ایک قیدی نے وائلن بجایا۔
جہاں تک اسے خبر تھی، سیلما سوبی بور کی قتل گاہ سے زندہ بچنے والی واحد حقیقی ڈچ قیدی تھی۔ جنگ کے بعد اس نے شادی کرلی۔ 1957 میں اس نے اور اُس کے شوہر نے امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔
آئٹم دیکھیںابراھیم کی پرورش پولینڈ کے شہر چیسٹوکووا میں ہوئی۔ اُنہوں نے حجام کا پیشہ اختیار کیا۔ اُنہیں اور اُن کے خاندان کو 1942 میں چیسٹوکووا یہودی بستی سے ٹریبلنکا کیمپ کی قتل گاہ پہنچا دیا گیا۔ ٹریبلنکا میں ابراھیم کو جبری مشقت کیلئے منتخب کر لیا گیا۔ اُنہیں وہاں مجبور کیا گیا کہ عورتوں کو گیس کے ذریعے ہلاک کئے جانے سے پہلے اُن کے بال کاٹیں۔ اِس کے علاوہ اُنہیں کیمپ میں آنے والی گاڑیوں میں سے کپڑے چھانٹنے کا کام بھی سومپا گیا۔ ابراھیم 1943 میں کیمپ سے فرار ہو گئے اور واپس چیسٹوکووا پہنچ گئے۔ اُنہوں نے مزدوروں کے ایک کیمپ میں اُس وقت تک کام کیا جب 1945 میں سوویت فوجیوں نے کیمپ کو آزاد کرا لیا۔
آئٹم دیکھیںسن 1939 میں جب پولش فوج میں چیم کی تعیناتی شیڈول کے مطابق ختم ہونے والی تھی، جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ جرمنوں نے چیم کو گرفتار کیا اور اس کو زبردستی مشقت کے لئے جرمنی بھیج دیا۔ بطور ایک یہودی جنگی قیدی کے چیم کو بعد میں پولینڈ لوٹا دیا گيا۔ بعد میں اس کو سوبیبور کیمپ میں بھیج دیا گيا جہاں اس کے خاندان کے باقی لوگ مر گئے۔ 1943 میں سوبیبور بغاوت میں چیم نے ایک گارڈ کو قتل کر دیا۔ وہ اپنی محبوبہ سیلما کے ساتھ بچ کر بھاگ نکلا اور بعد میں اس سے شادی کر لی۔ ایک کسان نے ان کو اُس وقت تک خفیہ طور پر پناہ دی جب تک کہ سوویت فوجیوں نے جون سن 1944 میں اُنہیں آزاد نہیں کرا دیا۔
آئٹم دیکھیںجرمنوں نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ لیئو اور اُن کا خاندان لوڈز میں ایک گھیٹو یعنی یہودی بستی تک محدود ہو کر رہ گئے۔ لیئو کو یونیفارم تیار کرنے والے ایک کارخانے میں درزی کی حیثیت سے کام پر مجبور کیا گیا۔ 1944 میں لوڈز کی یہودی بستی کا خاتمہ کر دیا گیا اور لیئو کو جلا وطن کرکے آش وٹز بھیج دیا گیا۔ پھر اُنہیں جبری مشقت کیلئے گروز روزن کیمپ سسٹم میں بھجوا دیا گیا۔ جب سوویت فوج نے پیش قدمی کی تو قیدیوں کو آسٹریہ میں ای بینسی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ 1945 میں ای بینسن کو آزاد کرا لیا گیا۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.