جوزف اور اُن کا خاندان رومن کیتھولک تھے۔ 1939 میں پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد جرمنی میں جبری مشقت کیلئے پولینڈ کے شہریوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ جوزف دو بار گرفتاری سے بچنے میں کامیاب رہے مگر تیسری بار 1941 میں اُنہیں جرمنی کے شہر ہانوور میں جبری مزدوری کے کیمپ میں بھیج دیا گيا۔ اُنہیں چار سال سے زائد عرصے تک فوجی ہوائي جہازوں کے کنکریٹ کی تعمیر میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 1945 میں امریکی فوجیوں کے ذریعہ آزادی ملنے کے بعد جبری مشقت کے کیمپ کو بے گھر افراد کے کیمپ میں تبدیل کردیا گيا۔ جوزف وہیں رہے اور پھر اُنہیں 1950 میں اُنہیں امریکہ میں داخلے کے لئے ویزا مل گیا۔
جب ہم کام کررہے تھے تو کام کرنے والوں میں بہت سے لوگ تھے۔ وہاں پولینڈ اوراطالوی اور فرانسسی قومیتوں کے لوگ بھی تھے۔ مگر ہم لوگ آپس میں بات نہیں کرتے تھے کیونکہ وہاں جرمن افسر اور محافظ ہتھیاروں سے لیس موجود ہوتے تھے تاکہ کہیں آپ فرار نہ ہو جائیں۔ لہذا ہم صرف کام کرتے اور کوئی بات چیت نہیں کرتے تھے۔ اگر آپ کو بات چیت کرتے دیکھ لیا جاتا تو آپ کو مار پڑتی۔ لہذا ہمیں صرف کام کرنا تھا۔ ہم آپس میں نہایت ہی خاموشی سے بات چیت کرتے تھے۔ جب ہم آہستگی کے ساتھ پولینڈ کی زبان میں بات کرتے تو جرمن ہماری گفتگو نہیں سن سکتے تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارے سر پر سوار ہمیں اور ہمارے کام کی طرف دیکھتے رہتے کہ آیا ہم اچھی طرح سے کام کررہے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم کچھ غلط کام کرتے تو ہمیں بیلچوں یا رائفل سے بری طرح پیٹا جاتا۔ ایک دن مجھے ٹرین سے سیمنٹ لانا تھا۔ ٹرین پر دو لوگ مقرر تھے کہ وہ سیمنٹ کو اتاریں اور میرے کندھوں پر رکھیں اور یوں مجھے وہاں سے سیمنٹ کی یہ بوریاں گودام تک لانی ہوتی تھیں۔ آپ کو سارے کام دوڑتے ہوئے کرنا پڑتے تھے۔ اگر بارش ہوجاتی تو اور بھی زیادہ مصیبت ہوتی۔ اور اگر سیمنٹ کی بوری پھٹ جاتی تو آپ کو بہت ہی مار پڑتی۔ یہ آپ کی غلطی نہیں ہوتی تھی مگر آپ کو بہت احتیاط برتنا ہوتی تھی۔ لہذا وہ لوگ کسی سبوتاژ کے امکان کے بارے میں بہت ہی سخت تھے۔ ہم جرمنی میں سبوتاژ جیسی کوئی حرکت کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اگر آپ نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو آپ کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.