نازیوں کی نسل پرستی
نسل کے بارے میں نازی عقائد اور نظریات نے نازی جرمنی میں روزمرہ کی زندگی اور سیاست کے تمام پہلوؤں کو تشکیل دیا۔ خاص طور پر، نازیوں نے اس غلط خیال کو قبول کیا کہ یہودی ایک الگ اور کمتر نسل ہیں۔ اس عقیدے کو نسلی سام دشمنی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نسل کے بارے میں نازی عقائد اور نظریات کے مشترکہ مجموعہ کو بعض اوقات "نازی نسل پرستی" یا "نازی نسلی نظریہ" بھی کہا جاتا ہے۔ نسل پرستی کی دیگر اقسام کی طرح، نازی نسل پرستی بھی تعصبات اور دقیانوسی تصورات پر مبنی تھی۔
نازیوں نے نسل کے بارے میں ایسے خیالات کو اپنی طرف متوجہ کیا جو پورے یورپ اور شمالی امریکہ میں پھیلے ہوئے تھے۔ تاہم، نازی نسل پرستی کی خصوصیات انتہائی تھیں۔ وہ ایڈولف ہٹلر کی نسل کی تشریح پر مبنی تھے۔اپنی کتاب Mein Kampf (1925) میں ہٹلر نے دنیا کے متعلق اپنے نسلی تناظر کی وضاحت کی۔ وہ نسلی پاکیزگی اور نسلی جدوجہد کا نظریہ رکھتا تھا۔ جرمنی میں نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد حکومتی پالیسی کو انہی نظریات نے آگے بڑھایا۔ نسل کے حوالے سے ہٹلر کے نظریات کو بڑے پیمانے پر غلط اور غیر اخلاقی قرار دیا گیا ہے۔
نازیوں کی نسل پرستی کی وجہ سے چھ ملین یہودی اور لاکھوں دیگر افراد مظالم اور قتل عام کا شکار ہوئے۔
نازیوں کی نسل پرستی کا تعارف
ایڈولف ہٹلر اور نازیوں کا خیال تھا کہ دنیا الگ الگ نسلوں میں تقسیم ہے۔
نازیوں کے مطابق، ہر نسل کی اپنی خصوصیات تھیں۔ نازیوں کے خیال میں یہ خصوصیات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ایک نسل کے تمام اراکین یکساں وراثتی خصوصیات رکھتے ہیں۔ پھر ان خصوصیات نے نسل کی ظاہری حالت، ذہانت، تخلیقی صلاحیتوں اور طاقت کا تعین کیا۔
نازیوں کے خیال میں کچھ نسلیں دیگر نسلوں سے بہتر خصوصیات کی حامل تھیں۔ نازی فکر کے مطابق، بہترین خصوصیات والی نسلیں دوسری نسلوں پر حاوی تھیں۔
آریائی نسل کے بارے میں نازی خیالات
ہٹلر اور نازیوں نے جرمنوں کو "آریائی" نسل کے ارکان کے طور پر شناخت کیا۔ نازیوں کے مطابق، آریائی نسلی درجہ بندی میں سرفہرست تھے۔ اسی لیے نازی جرمن آریائیوں کو "اعلیٰ نسل" سمجھتے تھے۔
نازی آریاؤں کو سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں، پھرتیلے اور دراز قد والے تصور کرتے تھے۔ نازیوں کے پروپیگنڈا پوسٹرز، تصاویر اور فلمیں ایسے لوگوں کو دکھاتی تھیں جو اس تصور کے مطابق تھے۔ تاہم، بہت سے لوگ جنہیں نازی آریائی جرمن سمجھتے تھے، ایسے نہیں دکھتے تھے۔ مثال کے طور پر، ایڈولف ہٹلر کے بال بھورے تھے اور قد متوسط تھا۔ نازی صرف بالوں یا آنکھوں کے رنگ کی بنیاد پر لوگوں پر ظلم یا انہیں قتل نہیں کرتے تھے۔
نازیوں کا خیال تھا کہ انہیں جرمنوں کو کمتر نسلوں سے بچانا ہے۔ مضبوط رہنے کے لیے، انھوں نے سوچا کہ انھیں نسلی طور پر خالص رہنا چاہئیے۔ ہٹلر اور نازیوں کے لیے یہودی لوگ آریائی نسل کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے۔
یہودیوں کے خلاف نازیوں کا نسلی امتیاز
نازیوں نے یہودیوں کی وضاحت مذہب سے نہیں بلکہ نسل سے کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہودی ایک الگ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہودی دیگر تمام نسلوں سے کمتر ہیں۔ یہودیوں کے متعلق نازیوں کی تعریف میں وہ لوگ شامل تھے جو یہودیت پر عمل نہیں کرتے تھے۔
ہٹلر اور نازیوں نے دعویٰ کیا کہ "یہودی نسل" خاص طور پر خطرناک تھی۔ فرضی طور پر اس نسل نے دیگر نسلوں کا استحصال کیا اور انہیں نقصان پہنچایا تھا۔ اس طرح نازیوں نے یہودیوں کو "طفیلی نسل" کہا۔ خاص طور پر ان کا خیال تھا کہ یہودی طفیلیے ہیں جو آریائی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس غلط اور متعصب عقیدے کی بنیاد پر نازیوں نے یہودیوں پر ظلم کیا۔ وہ یہودیوں اور آریائی جرمنوں کو الگ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہودیوں کو جرمنی چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
نسل کی پیمائش اور شناخت کے حوالے سے نازیوں کی ناکام کوششیں
نازیوں نے اپنے نسلی نظریات کو ثابت کرنے کے لیے سائنس کا استعمال کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی مدد کے لیے ڈاکٹروں اور دیگر سائنسدانوں کو بھرتی کیا۔ ان اہلکاروں نے لوگوں کو نسلوں میں درجہ بند کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لوگوں کی جسمانی خصوصیات جیسے ناک، کھوپڑی، آنکھوں اور بالوں کی پیمائش اور ان کی وضاحت کی۔
درجہ بندی کی یہ کوششیں نازیوں کے نسلی نظریات کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں۔ درحقیقت، ان کی کوششوں سے آشکار ہوا کہ انسانوں کو سائنسی بنیادوں پر نسلوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ بنی نوع انسان قدرتی طور پر بہت متنوع ہے۔ تاہم، یہ حقیقت نازیوں کو نہیں روک سکی۔
نازیوں کی نسلی پالیسیاں
نازی نسل پرستی نے طے کیا کہ نازیوں نے جرمنی میں لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جن لوگوں کو نازیوں نے آریائی کے طور پر شناخت کیا وہ نازیوں کی معاشی اور سماجی پالیسیوں سے مستفید ہوئے۔ نازیوں نے جن کی شناخت غیر آریائی کے طور پر کی تھی (بشمول یہودی) ان پر ظلم کیا گیا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ مثال کے طور پر، نیورمبرگ ریس قوانین نے یہودیوں سے شہریت کے حقوق چھین لیے۔ قوانین نے نام نہاد نسلی اختلاط پر بھی پابندی عائد کردی۔ اس کے علاوہ، نازیوں نے بعض گروہوں کی جبری نس بندی کی جنہیں وہ کمتر سمجھتے تھے۔ یہ طریقہ کار جرمنی میں معذور افراد، روما اور سیاہ فام لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے روکتا تھا۔
نازیوں کی نسلی جنگ
نازی نظریہ، بشمول نازی نسل پرستی، دوسری جنگ عظیم (1939-1945) کا باعث بنی۔
جنگ نازی نسلی نظریہ کا حصہ تھی۔ نازیوں کا خیال تھا کہ نسلوں کا ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنا مقصود تھا۔ ان کے لیے جنگ آریائی نسل کے لیے زمین اور وسائل حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ خاص طور پر نازی مشرقی یورپ کے علاقے کو فتح کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے وہاں رہنے والے لوگوں کو ہٹانے، غلبہ حاصل کرنے یا قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ آریائی جرمنوں کو اس سرزمین پر قابو پانا چاہئیے کیونکہ وہ ماسٹر نسل سمجھے جاتے تھے۔ نازیوں نے اس علاقے کو "رہنے کی جگہ" (Lebensraum) کہا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کی امید میں نازیوں نے پولینڈ سے شروع کرتے ہوئے مشرقی یورپ کے بیشتر حصوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا۔ مقبوضہ مشرقی یورپ میں نازیوں نے انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پورے علاقے میں عام شہریوں پر ظلم کیا اور انہیں قتل کیا۔
ہولوکاسٹ اور نازی نسل پرستی
نازی نسل پرستی کی وجہ سے ساٹھ لاکھ یہودیوں کا اجتماعی قتل ہوا۔ نازیوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ یہودی ایک کمتر نسل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی جھوٹا دعویٰ کیا کہ تمام یہودی جرمنی کے لیے ایک وجودی خطرہ ہیں اور انہیں تباہ ہونا ہے۔ اس نسل پرستانہ سوچ سے متاثر ہو کر نازیوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ کے یہودیوں کی نسل کشی کی۔ اس نسل کشی کو ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے۔
اہم تاریخیں:
جولائی 1925
ایڈولف ہٹلر کی Mein Kampf کا پہلا ایڈیشن شائع ہوتا ہے۔
ایڈولف ہٹلر جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے میں قید کے دوران Mein Kampf نامی ایک کتاب لکھتا ہے۔ عنوان کا مطلب ہے "میری جدوجہد۔" یہ کتاب جزوی سوانح عمری اور جزوی سیاسی منشور ہے۔ پہلی جلد جولائی 1925 میں نازی پارٹی کے اشاعتی ادارے کی جانب سے شائع کی گئی۔ دوسری جلد اگلے سال شائع ہوئی۔Mein Kampf میں ہٹلر نے اپنے نسل پرست، یہودی دشمن عالمی نظریے کا خاکہ پیش کیا۔ یہ نظریات نازی نظریے کی بنیاد ہیں۔ 1933 میں ہٹلر کے جرمنی کے چانسلر بننے کے بعد ان کے مہلک نتائج برآمد ہوئے۔
7 اپریل، 1933
پروفیشنل سول سروس کی بحالی کے لیے قانون
اپریل 1933 میں نازیوں نے اپنا پہلا قومی یہود مخالف قانون نافذ کیا۔ یہ قانون "پروفیشنل سول سروس کی بحالی کے لیے قانون" کہلاتا ہے۔ یہ حکومت کو بعض سرکاری اہلکاروں، بشمول یہودی اور سیاسی مخالفین کو برطرف کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ نازیوں کا دعویٰ تھا کہ یہ قانون حکومت کو زیادہ قابل اعتماد اور موثر بنائے گا۔ درحقیقت، یہ قانون ایک تزکیہ ہے۔ یہ یہودیوں کو جرمن معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی سے خارج کرنے کی نازیوں کی پہلی کوشش تھا۔
14 جولائی، 1933
نس بندی کا قانون
14 جولائی 1933 کو نازی جرمن حکومت نے نس بندی کا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کو "موروثی بیماریوں کے ساتھ اولاد کی روک تھام کا قانون" کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت کو بعض بیماریوں میں مبتلا جرمنوں کو زبردستی نس بندی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ خاص طور پر قانون ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جن کی تشخیص موروثی عوامل سے متاثر ہوتی ہے، جن میں موروثی بہرا پن، موروثی اندھا پن، اور شیزوفرینیا شامل ہیں۔ نازیوں نے اس قانون کے تحت تقریباً 400,000 لوگوں کی نس بندی کی۔