سوویت یونین (USSR)

یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس (USSR) رسمی طور پر بطور ریاست 1922 میں قائم ہوئی۔ سوویت یونین—جیسا کہ یہ اکثر کہلاتی ہے— ماسکو میں واقع ایک کمیونسٹ آمریت تھی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران USSR پر ایک آمر جوزف سٹالن کی حکومت تھی۔ 

روسی سلطنت کے خاتمے اور روسی خانہ جنگی (1917-1922) کے نتیجے میں سوویت یونین تشکیل پائی۔ فروری 1917 میں ایک مقبول انقلاب نے روسی زار کا تختہ الٹ دیا۔  شاہی حکومت کی جگہ عبوری حکومت  نے لے لی۔ اس انقلاب کے بعد اکتوبر 1917 میں ایک بغاوت ہوئی جس میں ولادی میر لینن اور بالشویک پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1918 میں بالشویک پارٹی کو کمیونسٹ پارٹی کا نام دیا گیا۔ بالشویک بغاوت کے باعث خانہ جنگی ہو گئی جس کے نتیجے میں سابقہ روسی سلظنت کے بیشتر حصے پر کمیونسٹوں کا کنٹرول ہو گیا۔ سوویت علاقے میں دوسروں کے ساتھ روس، یوکرائن، اور بیلاروس (بیلاروسیا) کے ممالک شامل تھے۔

USSR نے بین الاقوامی محنت کش طبقے کے نام پر عالمی کمیونسٹ انقلاب برپا کرنے کی سرگرمی سے کوشش کی۔ دنیا کے قریباً ہر صنعت یافتہ ملک میں کمیونسٹ تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان میں سے بہت سی تحاریک  سوویت یونین کی طرف دیکھتی تھیں جو اُس وقت قیادت کے لئے واحد کمیونسٹ ریاست تھی۔ کمیونسٹوں کا مقصد لوگوں کے درمیان تمام قومی، سماجی، اور معاشی فرق کو ختم کرنا تھا۔ وہ مذہبی اداروں کو بھی ختم کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ معاشرہ میں موجود طاقتور اشرافیہ سے رضاکارانہ طور پر اختیار چھوڑنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی، کمیونسٹوں نے پرتشدد انقلاب کی حمایت کی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر یورپی ریاستوں میں بھی پرتشدد کمیونسٹ بغاوتیں ہوئیں۔ نتیجتاً، سوویت یونین کو پوری دنیا میں، خاص طور پر قائم شدہ مذاہب  کے ارکان، متوسط ​​اور اعلیٰ طبقات، لبرل جمہوریت کے حامیوں، سرمایہ داروں، قوم پرستوں، اور فاشسٹوں کی نظر سے سنگین خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔ 

نازی تناظر میں سوویت یونین

جرمنی میں نازی تحریک کے قیام کے بعد سے سوویت یونین کو ایک ایسے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا جس کے ساتھ مقابلہ ناگزیر تھا۔ سوویت یونین کے بارے میں نازی نظریہ نازی نسل پرستانہ نظریے کے تین اصولوں پر مبنی تھا۔ 

  • ہٹلر نے سوویت یونین کی سرزمینوں کو جرمنوں کی لیبینسرام منزل ("رہنے کی جگہ") کے طور پر دیکھا۔ اس کا خیال تھا کہ جرمنی کو ان سرزمینوں کو فتح کرنا ہوگا اور وہاں جرمنوں کو آباد کرنا ہوگا تاکہ جرمن "نسل" نسلوں کے درمیان بقا کی مسلسل جنگ جیت سکے۔
  • نازیوں کا کہنا تھا کہ یہودیوں نے بالشویک کمیونزم بنایا تھا اور وہ اسے عالمی تسلط حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ نتیجتاً، وہ اکثر کمیونزم کو "Judeo-Bolshevism" کہتے تھے۔ نازیوں نے سوویت یونین کی فتح کو دنیا میں یہودی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی طرف ایک ضروری قدم کے طور پر دیکھا۔
  • نازیوں کا خیال تھا کہ سوویت یونین میں سلاو اور دیگر نسلی گروہ نسلی طور پر کمتر اور فطرتاً جرمن "نسل" کے دشمن تھے۔ 

نازی حکومت کے پہلے چھ سالوں میں نازی پروپیگنڈا نے سوویت یونین کو بری طرح نشانہ بنایا۔ نجی طور پر ہٹلر نے بارہا  مستقبل میں لڑائی کی بات کی۔ اس کے باوجود، 1939 میں نازی جرمنی نے سوویت یونین کے ساتھ تعاون کی ایک عارضی حکمت عملی کی پالیسی شروع کی۔ اس عارضی تبدیلی نے ہٹلر کے اپنے مشرقی حصے کو محفوظ بنانے کے حکمت عملی کے فیصلے کی عکاسی کی جس دوران جرمنی نے پولینڈ کو تباہ کر دیا اور برطانیہ اور فرانس کو شکست دی۔ 

جرمن-سوویت تعلقات، 1939–1941

جرمن۔سوویت تقسیم 1939

1939 کے موسم گرما کے دوران شاہی جاپان اور سوویت یونین مینچوریا میں غیر اعلانیہ جنگ لڑ رہے تھے۔ اس سال کے اگست میں سٹالن نے جرمنی کی معاہدے کی پیشکش کا خیر مقدم کیا۔ ہٹلر کی طرح سٹالن دو محاذوں کی جنگ میں ملوث ہونے سے بچنا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کو امید تھی کہ جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے درمیان جنگ تینوں ممالک کو کمزور کر دے گی اور انہیں سوویت یونین کی طرف سے ہدایت اور حمایت یافتہ کمیونسٹ بغاوتوں کے مقابلے کے لئے کمزور کر دے گی۔  

23 اگست 1939 کو نازی جرمنی اور سوویت یونین نے جرمن-سوویت معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ مولوٹوو-ربنٹراپ معاہدہ (دونوں وزرائے خارجہ کے ناموں پر جنہوں نے اس پر مذاکرات کئے) کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ معاہدے کے دو حصے تھے، ایک عوامی اور ایک خفیہ۔ عوامی حصہ ایک عدم جارحیت کا معاہدہ تھا جس کے مطابق ہر ملک نے دوسرے پر دس سال تک حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور خفیہ پروٹوکول میں، دستخط کنندگان نے مشرقی یورپ کو جرمنی اور سوویت اثرورسوخ کے علاقوں میں تقسیم کیا اور پولینڈ کے حصے بخرے کرنے پر اتفاق کیا۔ 

جرمن-سوویت معاہدے سے جرمنی کو سوویت مداخلت کے خوف کے بغیر یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ دو دن کے بعد برطانیہ اور فرانس نے— جو پانچ ماہ قبل پولینڈ کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی ضمانت دے چکے تھے— جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ اِن واقعات سے جنگِ عظیم دوم کا آغاز ہوگیا۔

معاہدے کے خفیہ پروٹوکول کے مطابق 1939 کے موسمِ خزاں میں سوویت فوج نے مشرقی پولینڈ پر قبضہ اور الحاق کیا۔ 30 نومبر 1939 کو سوویت یونین نے فن لینڈ پر حملہ کیا۔ چار ماہ کی جنگ کے بعد سوویت یونین نے فن لینڈ کے سرحدی علاقوں، خاص طور پر لینن گراڈ (سینٹ پیٹرز برگ) کے قریب، پر قبضہ کر لیا۔ 1940 کے موسم گرما میں انہوں نے بالٹک ریاستوں پر قبضہ کرکے انہیں ضم کر لیا اور رومانیہ کے صوبوں شمالی بوکووینا اور بیسرابیا کو ہتھیا لیا۔

جرمنی حملے کی تیاری کرتا ہے

جولائی 1940 تک جرمنی نے ڈنمارک، ناروے، بیلجیم، اور نیدرلینڈ پر قبضہ کر لیا۔ اس نے فرانس کو بھی شکست دے دی تھی۔ اگرچہ برطانیہ ابھی بھی جنگ لڑ رہا تھا، ہٹلر نے فیصلہ کیا کہ سوویت یونین کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ہٹلر اور اس کے عسکری قائدین کو یقین تھا کہ جرمنی سوویت یونین کو تیزی سے شکست دے گا اور پھر براعظم یورپ میں ناقابل تسخیر حیثیت حاصل کر لے گا۔  

جرمن سفارت کاروں نے جنوب مشرقی یورپ میں جرمنی کے تعلقات کو محفوظ بنانے کے لئے کام کیا۔ نومبر 1940 میں ہنگری، رومانیہ، اور سلواکیہ سب جرمنی اور اٹلی کے محوری اتحاد کا حصہ بن گئے۔ 18 دسمبر 1940 کو ہٹلر نے حکمنامہ 21 (خفیہ نام کارروائی "باربروسا") پر دستخط کیے۔ یہ سوویت یونین پر حملے کی کارروائی کا پہلا حکم تھا۔ 1941 کے موسم بہار کے دوران اس نے حملے کے منصوبوں میں اپنے مشرقی یورپی اتحادیوں کو شامل کیا۔ 

سوویت یونین پر جرمن حملہ

ہٹلر اور اس کے فوجی مشیروں نے آپریشن باربروسا کی بلٹزکریگ (بجلی کی طرح جنگ) کے طور پر منصوبہ بندی کی جو چند ہفتوں میں سوویت ریڈ آرمی کو شکست دے گی۔ اصل میں حملے کو مئی میں شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔ اسے ایک ماہ کے لئے مؤخر کر دیا گیا تاکہ جرمنی یونان اور یوگوسلواکیہ فتح کر کے اپنی جنوبی علاقے کو محفوظ کر لے۔

جرمن افواج نے جرمن-سوویت معاہدے پر دستخط ہونے کے دو سال سے بھی کم وقت کے بعد 22 جون 1941 کو سوویت یونین کے زیر انتظام علاقوں پر حملہ کیا۔ جنگ کی تاریخ میں آپریشن باربروسا کو سب سے بڑا عسکری آپریشن سمجھا جاتا ہے۔ تین آرمی گروپس، جن میں تین ملین سے زیادہ جرمن سپاہی تھے، کے ساتھ جلد ہی نصف ملین سے زیادہ جرمنی کے اتحادیوں (فن لینڈ، ہنگری، اٹلی، سلواکیہ، اور کروشیا) کے فوجی دستے شامل ہوگئے۔ انہوں نے سوویت یونین پر شمال میں بحیرہ بالٹک سے اور جنوب میں بحیرہ اسود تک پھیلے ہوئے ایک وسیع محاذ پر حملہ کیا۔ 

مہینوں تک سٹالن برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ  کے انتباہات پر توجہ دینے سے انکار کرتا رہا کہ جرمنی سوویت یونین پر حملہ کرنے والا تھا۔ اس طرح جرمنی تقریباً مکمل طور پر حیران کرنے میں کامیاب رہا اور سوویت فوجیں ابتدائی طور پر مغلوب ہو گئیں۔ لاکھوں سوویت سپاہی گھیرے میں آ گئے۔ ان کے رسد اور کمک کے راستے کاٹ دیے گئے اور وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ مقابلے کے تین ہفتوں کے بعد ہٹلر اور اس کے عسکری مشیر پراعتماد تھے کہ سوویت یونین پر مکمل فتح ان کے ہاتھ میں ہے۔ 

فنا کی جنگ 

مشرقی محاذ پر دسمبر 1943 میں سوویت حملہ کے دوران سوویت یونین میں جرمن فوجی۔

ہٹلر اور جرمن فوج نے سوویت یونین کے خلاف مہم کی منصوبہ بندی "فنا کی جنگ" (ورنیچٹنگز کریگ) کے طور پر کی جو "یہودی بالشویک" کمیونسٹ حکومت اور سوویت شہریوں، خاص طور پر یہودیوں، دونوں کے خلاف تھی۔ وہرمیکٹ (جرمنی کی مسلح افواج) کے قائدین نے فوجیوں کو ہدایت کی کہ وہ شہریوں کی حفاظت کے لیے جنگ کے اصولوں کو نظر انداز کریں اور تمام دشمنوں سے "بغیر کسی رحم کے" نمٹیں۔ 

جرمنی کے منصوبہ سازوں نے فیصلہ کیا کہ جرمنی سے رسد فراہم کرنے کی بجائے جرمن فوج اس سرزمین پر انحصار کرے گی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ اس پالیسی کے باعث لاکھوں شہری باشندے بھوک کی وجہ سے مر جائیں گے۔ 

مزاحمتی اقدامات کی جوابی کارروائیوں میں وہرمیکٹ نے شہریوں کو اجتماعی سزائیں دں۔ اس میں اکثر پورے گاؤں کو جلا دینا اور ان کے رہائشیوں کو قتل کر دینا شامل تھا۔

مشرقی محاد کے پار فائرنگ کے ذریعے اجتماعی قتل عام

فنا کی جنگ کی تیاری میں آرمی ہائی کمان (Oberkommando des Heeres, OKH) اور رائخ سیکورٹی کے مرکزی دفتر (Reichssicherheitshauptamt, RSHA) کے عہدیداروں نے یہودیوں، کمیونسٹوں اور دوسرے افراد، جن کو سوویت سرزمین پر طویل مدتی جرمن حکمرانی کے قیام کے لیے خطرناک سمجھا جاتا تھا، کا فائرنگ کرکے اجتماعی قتلِ عام کے لیے ایس ایس آئن سیٹزگروپپن کی تعیناتی کے انتظامات پر بات چیت کی۔ آئن سیٹزگروپپن سیکورٹی پولیس (Sicherheitspolizei, Sipo) اور سیکورٹی سروس (Sicherheitsdienst-SD) کی خصوصی ٹاسک فورس تھیں۔ وہ فرنٹ لائنز کے بالکل پیچھے کام کرتی تھیں اور انہیں اکثر "موبائل قتل یونٹس" کہا جاتا تھا۔  ایس ایس اور پولیس کی دیگر اکائیوں کے ساتھ، اور وہرمیکٹ اور مقامی معاونوں کی مدد سے، آئن سیٹزگروپپن نے 1941 کے آخر تک نصف ملین سے زیادہ شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ متاثرین میں سے وسیع اکثریت یہودی مرد، عورتوں اور بچوں کی تھی۔ سوویت یونین کے حملے کے دوران یہودیوں کے منظم اجتماعی قتل نے یورپ میں یہودیوں کو ختم کرنے کی نازی جرمنی کی "حتمی حل" کی پالیسی کا آغاز کیا۔ 

سوویت جنگی قیدیوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام

جرمنی کی فنا کی پالیسیوں میں سوویت سپاہی شامل تھے جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ وہرمیکٹ نے لاکھوں سوویت جنگی قیدیوں کو عارضی کیمپوں میں بند کر دیا جہاں تحفظ، خوراک یا پانی بالکل موجود نہیں تھے یا بہت کم تھے۔ فاقہ کشی اور وبائی امراض نے جلد ہی انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہرمیکٹ نے لاکھوں سوویت جنگی قیدیوں کو ایس ایس کے حوالے بھی کر دیا۔ ایس ایس نے سوویت جنگی قیدیوں کو سزائے موت دے دی یا کنسنٹریشن کیمپوں میں مرتے دم تک کام کرواتے رہے۔ فروری 1942 تک، حملہ شروع ہونے کے بعد آٹھ سے کم مہینوں میں، دو ملین سوویت سپاہی جرمنی کی قید میں ہلاک ہو گئے۔

محاذ پہ رکاوٹ

ستمبر 1941 کے اوائل تک جرمن افواج شمال میں لینن گراڈ کی دہلیز تک  پہنچ گئیں تھیں۔ انہوں نے وسط میں سمولینسک اور جنوب میں ڈنیپروپیٹرووسک حاصل کر لیے تھے۔ جرمن یونٹس دسمبر کے شروع میں ماسکو کے مضافات میں پہنچ گئیں۔ تاہم،  موسم سرما کے آغاز پر جرمنوں کی پیشقدمی رُک گئی۔ 

مہینوں کی معرکہ آرائی کے بعد جرمن فوج تھک کر نڈھال ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کے تیزی سے منہدم ہونے کی توقع کے بعد جرمن منصوبہ ساز اپنی فوجوں کو موسم سرما کی جنگ کے لیے سازوسامان سے لیس کرنے میں ناکام رہے۔ مزید برآں، جرمنوں کی تیز رفتار پیش قدمی نے افواج کو اپنی سپلائی لائنوں کو پیچھے چھوڑ دیا، جو کہ بہت زیادہ فاصلوں کی وجہ سے کمزور تھیں (ماسکو برلن سے تقریباً 1,000 میل مشرق میں ہے)۔

دسمبر 1941 میں سوویت یونین نے محاذ کے مرکز کے خلاف ایک بڑا جوابی حملہ شروع کیا اور جرمنوں کو ماسکو سے افراتفری کے عالم میں پیچھے دھکیل دیا۔ جرمنوں نے محاذ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں سوویت یونین کے بعد والے حملوں کو پسپا کر دیا۔ لیکن انہیں سمولینسک شہر کے مشرق میں واقع محاذ کو مستحکم کرنے میں تقریباً دو ماہ لگ گئے۔ پھر وہ دوبارہ منظم ہوئے اور دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 

بلیٹزکریگ معرکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو گیا۔ اس کے باوجود جرمن قائدین ابھی بھی پراعتماد تھے کہ سوویت یونین تباہی کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے فرض کر لیا تھا کہ ملک کے وسائل تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ مزید براں، انہیں یقین تھا کہ سوویت یونین کے ناراض شہری سٹالن انتظامیہ کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دینے کے لئے رضامند نہیں ہوں گے۔ درحقیقت، وہرمیکٹ کے زیر قبضہ علاقوں میں کچھ لوگوں نے پہلے جرمنوں کو نجات دہندگان کے طور پر خوش آمدید کہا۔ 

لیکن 1941–1942 کے موسم سرما کے دوران سوویت والوں نے مشرق میں فیکٹریوں کو خالی کر دیا اور وسیع پیمانے پر جہازوں، ٹینکوں، اور دوسرے ہتھیاروں کی پیداوار میں اضافہ کیا۔ برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ نے سامان بھیج کر ان کوششوں کی حمایت کی۔ دریں اثنا، اجتماعی قتل کی جرمن پالیسیوں نے سٹالن کے ان دلائل کو معتبر کر دیا کہ سوویت شہریوں کی بقا کا انحصار جرمن حملہ آوروں کو پسپا کرنے پر ہے۔ علاوہ ازیں، پسپائی اختیار کرنے والے ریڈ آرمی کے سپاہیوں کو سوویت یونین کی خفیہ پولیس NKVD نے مار دیا۔  ہتھیار ڈالنے کی صورت میں جرمن کیمپ میں بھوک سے مرنے یا پسپائی کی صورت میں فائرنگ اسکواڈ کا سامنا کرنے کے امکانات نظر آئے تو سوویت فوجیوں نے عام طور پر لڑتے ہوئے مرنے کو ترجیح دی۔ 

مشرقی محاذ، 1942–44

1942–1943

1942 کے موسم گرما میں جرمنی اور اس کے اتحادیوں نےجنوب اور جنوب مشرق میں دریائے وولگا پر واقع شہر سٹالن گراڈ کے صنعتی مرکز کی طرف اور قفقاز کے تیل کے علاقوں کی طرف ایک بڑے حملے کے ساتھ دوبارہ جارحانہ کارروائی شروع کی۔ جرمن فوج کو یقین تھا کہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے سے سوویت جنگی استعداد ناکارہ ہو جائے گی اور یہ امر یقینی ہو جائے گا کہ جرمنی اور اٹلی کے پاس تمام محاذوں اور سمندر پر حملہ کرنے کے لئے کافی ایندھن موجود ہے۔  ہٹلر کے مطابق، جوزف سٹالن کے نام پر بنا شہر حاصل کرنا ایک بڑی نفسیاتی اور اسٹریٹجک فتح ہو گی۔ 

ستمبر 1942 تک جرمنی اپنی عسکری کامیابی کے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ اس نے یورپ میں مغرب میں فرانس سے لے کر مشرق میں دریائے وولگا تک ؛ نارووے میں آرکٹک حلقے سے شمالی افریقہ تک غلبہ پا لیا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے آغاز سے تین سال تک جرمنی کو ایک بھی بڑی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

پھر نومبر میں حالات نے دو بڑے پلٹے کھائے۔ 8 نومبر کو، جب جرمن افواج سٹالن گراڈ حاصل کرنے کے قریب نظر آ رہی تھیں، برطانوی اور امریکی افواج شمالی افریقہ میں اتر گئیں۔ ان سے مقابلہ کے لئے ہٹلر نے فوجی دستوں، اسلحے، اور ہوائی جہازوں کو مشرقی محاذ سے منتقل کیا۔ 19 نومبر کو سوویت فوج نے سٹالن گراڈ فتح کرنے کی کوشش میں مصروف جرمنی اور رومانیہ کی افواج کے خلاف وسیع پیمانے پر جوابی حملہ شروع کر دیا۔ ایک ہفتے سے کم وقت میں سوویت افواج نے پوری جرمن سکستھ آرمی سمیت اپنے دشمنوں کو نرغے میں لے لیا۔ مزید دو ماہ خوفناک جنگ ہوئی جس میں دونوں اطراف کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ بچ جانے والے جرمن سپاہیوں نے 31 جنوری اور 2 فروری 1943 کے درمیان ہتھیار ڈال دیے۔ 

جرمنی کی شکست اور سٹالن گراڈ میں ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی موت یا گرفتاری نے جرمن عوام کو صدمے سے دوچار کر دیا اور ان کا ایمان متزلزل ہو گیا کہ جرمنی جنگ جیت جائے گا۔ مشرقی محاذ پر معرکہ آرائی کی بدولت جرمنی کی افرادی قوت اور اسلحے میں بڑے پیمانے پر کمی آ گئی۔ دریں اثناء، مغربی اتحادیوں کی بمباری مہمات نے جرمنی کی دوبارہ ہتھیار مہیا کرنے کی کاوشوں کو مفلوج اور جرمنی کے شہروں کو ملبے میں تبدیل کر رہی تھیں۔ 

فروری 1944 میں مشرقی محاذ پر جرمن بکتر بند ڈویژن کے دستے۔

1943–1944 

جولائی 1943 میں جرمنی نے روس میں کرسک کے مقام پر ایک اور بڑا حملہ کیا۔ سوویت والے جرمنی کے منصوبوں سے اچھی طرح آگاہ تھے اور انہوں نے محض چند دنوں میں جرمن افواج کو شکست دے دی۔ اسی وقت مغربی اتحادیوں نے سسلی میں فوجیں اتار دیں۔ ان کی وہاں آمد نے جرمنوں کو نئے محاذ پر لڑنے کے لئے فوجی دستے بھیجنے پر مجبور کیا۔ اس وقت سے جرمن افواج مشرقی محاذ پر مسلسل پسپا ہوتی رہیں۔ وہ دوبارہ کبھی حملہ کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ 

1943 کے آخر تک سوویت افواج نے جرمنی کی افواج کو یوکرین کے ایک بڑے علاقے اور تقریباً سارے روس اور مشرقی بیلاروس (بیلورشیا) سے باہر نکال دیا۔ جون 1944 میں مغربی اتحادیوں کے نارمنڈی، فرانس میں کامیابی کے ساتھ  فوجیں اتارنے کے فوراً بعد سوویت یونین نے ایک اور بڑا حملہ شروع کیا۔ اس کامیاب مہم میں ریڈ آرمی نے بیلاروس اور یوکرین کے باقی حصوں، بالٹک ریاستوں کے بیشتر حصوں اور مشرقی پولینڈ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اگست 1944 تک سوویت فوجی جرمن سرحد عبور کر کے مشرقی پروشیا (ایک جرمن صوبہ جو پولینڈ اور لتھوانیا کے درمیان واقع ہے) میں داخل ہو چکے تھے۔ 

جرمنی کا ہتھیار ڈالنا

جنوری 1945 میں ایک نئے جارحانہ حملے نے سوویت فوجوں کو جرمنی میں برلن سے تقریباً 100 میل پر واقع دریائے اوڈر پہنچا دیا۔

1945 کے اپریل کے وسط میں سوویت فوج نے نازی جرمنی پر اپنا حتمی حملہ کیا۔ اس نے 13 اپریل کو ویانا کو گرفت میں لے لیا اور 21 اپریل کو برلن کا محاصرہ کرلیا۔ 25 اپریل کو سوویت دستے پیش قدمی کرتے ہوئے وسطی جرمنی میں دریائے ایلب پر تورگاؤ کے مقام پر امریکی فوجی دستوں سے جا ملےاور ایک طرح سے ملک کو دوحصؤں میں تقسیم کر دیا۔ برلن کی گلیوں میں ایک ہفتے سے زیادہ کی شدید لڑائی کے بعد سویت دستے ہٹلر کے مرکزی کمانڈ بنکر کے قریب پہنچ گئے۔ 30 اپریل 1945 کو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔ 2 مئی 1945 کو برلن نے سوویت افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

8 مئی کو مغرب میں اور 9 مئی 1945 کو مشرق میں جرمنی کی مسلح افواج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ 9 مئی کو سوویت فوج پراگ میں داخل ہو گئی۔ یہ آخری بڑا شہر تھا جو ابھی بھی جرمن یونٹس کے قبضہ میں تھا۔ مغربی اتحادیوں نے 8 مئی 1945 کو یورپ کا یوم فتح (V-E دن) کے طور پر اعلان کیا۔

جنگ عظیم دوم کی دوسری تمام مہم جوئیوں کو ملا کر بھی نازی جرمنی کے مشرقی محاز پر زیادہ لوگ لڑے اور مارے گئے۔