جرمنی میں آباد 80 فیصد یہودی (تقریبا 400000 افراد) جرمن شہریت رکھتے تھے۔ باقی زیادہ تر یہودی پولش شہریت رکھتے تھے۔ ان میں سے ایسے کئی افراد بھی تھے جو جرمنی میں پیدا ہوئے تھے اور جن کے پاس جرمنی میں رہنے کے لئے مستقل رہائشی حیثیت حاصل تھی۔ مجموعی طور پر جرمنی کے تقریبا ستر فیصد یہودی شہری علاقوں میں رہتے تھے۔ جرمنی میں پچاس فیصد یہودی جرمنی کے دس سب سے بڑے شہروں میں رہتے تھے۔ یہودی آبادی کے سب سے بڑے مراکز برلن (تقریبا ایک لاکھ 60 ہزار)، فرینکفرٹ ایم مین (تقریبا 26 ہزار)، بریسلاؤ (تقریبا 20 ہزار)، ہیمبرگ (تقریبا 17 ہزار)، کولون (تقریبا 15 ہزار)، ہینوور (تقریبا 13 ہزار) اور لیپزگ (تقریبا 12 ہزار) تھے۔ 10،000 سے زائد یہودی ڈانزگ کے آزاد شہر میں رہتے تھے۔ آسٹریا میں رہنے والے یہودیوں کی اکثریت ایک لاکھ 78 ہزار کے قریب افراد، دارالحکومت کے شہر ویانا میں رہتے تھے۔ چیکوسلواکیا میں یہودیوں کی سب سے بڑی برادری جن کی تعداد تقریبا 35،000 تھی، دارالحکومت پراگ میں رہتی تھی۔
یہودیوں کو الگ کر دینے والے سائن، جیسا کہ اس سائن سے ظاہر ہو رہا ہے، انہیں تمام تر نازی جرمنی میں عوامی جگہوں لگایا گیا تھا (جن میں پارک تھیٹر،سنیما ہال اور ریستوران شامل ہیں)۔ اس سائن پر جرمن زبان میں لکھا ہوا ہے "یہودیوں کی یہاں کوئي ضرورت نہیں ہے۔"
باربرا جرمنی کے دارالحکومت برلن میں رہنے والے یہودی والدین کی دو بیٹیوں میں سے بڑی بیٹی تھی۔ باربرا کے والد ایک کامیاب وکیل تھے۔ جب باربرا تھوڑی بڑی ہوئی تو اس کے والد اسے برلن میں سیر کرانے اور آرٹ میوزیم دکھانے لے جاتے تھے۔ باربرا کو گھوڑسواری کا شوق تھا اور ڈانسر بننے کی خواہشمند تھی۔
1933-39: جنوری 1933 میں جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا تو میرے والد کو غیر یہودی کلائنٹس رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جلد ہی ان کا کام رک گیا۔ اس سال جب میں 7 سال کی تھی تو میرا خاندان نقل مکانی کر کے نیدرلینڈ چلا گیا جہاں میری والدہ کے کچھ رشتہ دار رہتے تھے۔ میں ایمسٹرڈیم میں اسکول جاتی تھی اور جلد ہی میں نے ڈچ زبان سیکھ لی۔ نوکروں سے بھرے ہوئے بڑے گھر میں نہ رہنے کے باوجود بھی مجھے ایمسٹرڈیم میں رہنا ہہت پسند تھا۔ اس کا ماحول انتا پر تکلف نہیں تھا جتنا برلن کا تھا۔
1940-44: مئی 1940 میں جرمنوں نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا۔ دو سال بعد جب جرمنوں نے یہودیوں کو جلاوطن کرنا شروع کیا تو میرے بوائے فرینڈ مینفریڈ نے مجھے بتایا کہ "اجرتی کیمپ" میں جانے کا مطلب محض موت ہے۔ اس نے میرے اور میرے خاندان کیلئے جعلی شناختی کارڈز بنوائے اور مجھ سے کہا "اگر تمہیں بلوایا بھی جائے تو مت جانا"۔ میں نے پوچھا "اگر میں نہیں گئی تو میرے والدین کا کیا ہو گا؟" اس نے جواب دیا "ایسا کچھ نہیں ہو گا جو تمہارے جانے پر نہ ہو"۔ تمھارا کیا مطلب ہے؟" میں نے پوچھا۔ اس نے جواب دیا "جو کوئی جائے گا اس کو مار دیا جائے گا"۔ وہ سب مر جائيں گے۔"
مئی 1945 میں کینیڈين فوجیوں کے ایمسٹرڈيم کو رہا کرانے تک باربرا چھپی رہی۔ وہ نومبر 1947 ء میں امریکہ ہجرت کر گئی۔
ایوا بریجٹ جنوب مشرقی جرمنی میں دریائے رھائن کے قریب واقع ریاست بیڈن کے دارالحکومت میں رہنے والے جرمن یہودی والدین کے تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس کے دوست اور ہم جماعت اس کو بریجٹ اور اس کا خاندان اس کو "برکس" کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ایک لادینی گھرانے میں بڑی ہوئی اور سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے والد مقامی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد تھے۔
1933-39: 1933 میں نازی ایوا کے والد کو گھر سے گرفتار کر کے لے گئے کیونکہ وہ نازیوں کے خلاف ایک سرگرم کارکن تھے۔ دو مہنے بعد اس نے اپنے والد کو ایک کھلے ٹرک میں سڑکوں میں "گشت کرواتے" ہوئے دیکھا۔ ان کو حراستی کیمپ لے جاتے ہوئے سر عام ذلیل کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد ایوا نے اسکول جانے سے انکار کر دیا۔ اپریل 1934 میں جب اس کے والد کو مار دیا گا وہ اپنی والدہ کے ساتھ فرانس ہجرت کر گئی۔
1940-43: فرانسیسیوں نے جنگی قیدیوں کے کیمپ سے ایوا کو رہا کرایا مگر حالات اور بھی بدتر ہو گئے جب 1940 میں جرمنی نے فرانس کو شکست دی۔ 1941 میں ایوا کی بہن نے ایوا، اپنی والدہ اور اپنے لئے امریکہ کا ویزا اور بحری جہاز کے ٹکٹ حاصل کیے مگر ایوا کو نو مہینے کی حاملہ ہونے کی وجہ سے جہاز پر سوار ہونے کی اجازت نہيں ملی۔ اس کے بچے کے باپ نے ایوا کو چھوڑ دیا تھا۔ تنہا ایوا نے مرسیل میں اپنے بچے کو جنم دیا۔ جب ایوا اپنے ایک سالہ بیٹے کی دیکھ بھال نہیں کر سکی تو اس نے لموگس میں یہودی بچوں کی پناہ گاہ میں اسے چھوڑ دیا۔
جنوری 1943 میں جنوبی فرانس میں ایک راؤنڈ اپ کے دوران بریجٹ کو پکڑ لیا گیا اور سوبی بور میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں وہ انتقال کر گئی۔ اس کا بیٹا زندہ بچ گیا اور 1945 میں اسے فلسطین پہنچا دیا گیا۔
جنگ سے قبل کے جرمنی میں یہودی۔ یہودی قرون وسطی سے جرمنی میں رہ رہے ہیں۔ اور، یورپ کے بیشتر حصوں کی طرح، انہوں نے وہاں کئی صدیوں تک بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا سامنا کیا۔ 19ویں صدی میں جرمنی میں یہودیوں کو عیسائی جرمنوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔ 1933 تک، جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا، جرمنی کے یہودی جرمن معاشرہ میں بہت اچھی طرح ضم بلکہ یکجان ہو گئے تھے۔ اس انضمام کے باوجود، جرمنی کے یہودیوں نے پھر بھی قابل امتیاز شناخت اور ثقافت کو برقرار رکھا۔
1933 میں، جرمنی کی یہودی آبادی کی تعداد تقریباً 525,000 تھی۔ یہ اس وقت جرمنی کی کل آبادی کے ایک فیصد سے کم تھے۔
جرمنی میں آباد بیشتر یہودی (تقریباً 400000 افراد) جرمن شہریت رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت سے یہودیوں کا تعلق ان خاندانوں سے تھا جو صدیوں سے جرمنی میں آباد تھے۔ یہ خاندان جرمن زبان کو اپنی بنیادی زبان کے طور پر بولتے تھے۔ بیشتر خود کو جرمن تصور کرتے تھے۔ بعض صورتوں میں، انہوں نے غیر یہودیوں میں شادی کی تھیں۔
علاوہ ازیں، تقریباً 100,000 یہودیوں کے پاس جرمن شہریت نہیں تھی۔ یہ وہ یہودی تھے جن کے خاندانوں نے حالیہ دہائیوں میں جرمنی ہجرت کی تھی۔ بیشتر مشرقی یورپ سے آئے تھے۔ ان میں سے بھی بعض یہودی جرمن معاشرے میں اچھی طرح ضم ہو گئے تھے۔ دوسرے اپنی روایات کے ساتھ الگ الگ تارکین وطن کمیونٹیز میں رہ رہے تھے۔ ان کمیونٹیز کے یہودی بنیادی طور پر یدیش بولتے تھے، جو کہ وسطی اور مشرقی یورپ میں یہودیوں کے مابین استعمال ہونے والی زبان تھی۔
اگرچہ جرمنی میں تمام یہودیوں کا پس منظر ایک جیسا نہیں تھا، جرمن یہودیوں میں اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت کچھ مشترک تھا۔ کچھ خصوصیات جرمن-یہودی زندگی کے بارے میں مختص ہیں۔ انہوں نے یہودی آبادی کو باقی جرمن معاشرے سے تھوڑا سا الگ کر دیا۔
نازیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے جرمنی میں یہودیوں کی زندگی کیسی تھی؟
یہودیوں کی اکثریت (تقریباً 70فی صد) ایسے بڑے شہروں میں رہتی تھی جن کی آبادی 100,000 سے زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں، تقریباً 50فی صد غیر یہودی جرمن ایسے قصبوں میں رہتے تھے جن کی آبادی 10,000 سے کم تھی۔ اس کے باوجود، کچھ یہودی چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہتے تھے۔
بہت سے یہودی شاذ و نادر ہی یا کبھی کسی عبادت گاہ میں نہیں جاتے تھے۔ لیکن، زیادہ تر اپنی یہودیت کی مذہبی تعطیلات منانا جاری رکھے ہوئے تھے۔ جرمنی میں یہودیوں کی ایک اقلیت سختی سے یہودی مذہبی رسومات پر عمل پیرا رہی۔
بعض یہودی غریب تھے، جبکہ زیادہ تر یہودی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت سے لوگ چھوٹے کاروباروں میں کام کرتے تھے یا ان کے مالک تھے۔ یہودی درزیوں، سرکاری ملازمین، ڈاکٹرز، وکلاء، صحافیوں، بینک کلرکس، فیکٹری ورکرز، پروفیسرز اور اساتذہ کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ چند ایک امیر کاروباری مالکان تھے۔
بہت سے یہودی خود کو ایک مذہبی گروپ کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ جرمن تھے جو یہودیت پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے خود کو ایک نسلی گروپ کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ یہودی تھے جو جرمنی میں رہتے تھے۔
جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے باوجود یہودیوں کو جرمنی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر، تمام جرمنوں کو یقین نہیں تھا کہ یہودی جرمن ہو سکتے ہیں۔ کچھ گروپس نے، جن میں یونیورسٹی کے بہت سے طلباء کے کلب بھی شامل ہیں، یہودیوں کی رکنیت پر پابندی لگا دی۔ نازی پارٹی سمیت کچھ سیاسی جماعتیں کھلم کھلا یہود مخالف تھیں۔ پریس میں یہودیوں کے منفی دقیانوسی تصورات سامنے آئے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia.
View the list of all donors.