جنگ سے پہلے کے جرمنی میں یہودی

جنگ سے قبل کے جرمنی میں یہودی۔ یہودی قرون وسطی سے جرمنی میں رہ رہے ہیں۔ اور، یورپ کے بیشتر حصوں کی طرح، انہوں نے وہاں کئی صدیوں تک بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا سامنا کیا۔ 19ویں صدی میں جرمنی میں یہودیوں کو عیسائی جرمنوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔ 1933 تک، جب نازیوں نے اقتدار سنبھالا، جرمنی کے یہودی جرمن معاشرہ میں بہت اچھی طرح ضم بلکہ یکجان ہو گئے تھے۔ اس انضمام کے باوجود، جرمنی کے یہودیوں نے پھر بھی قابل امتیاز شناخت اور ثقافت کو برقرار رکھا۔

1933 میں، جرمنی کی یہودی آبادی کی تعداد تقریباً 525,000 تھی۔ یہ اس وقت جرمنی کی کل آبادی کے ایک فیصد سے کم تھے۔

جرمنی میں آباد بیشتر یہودی (تقریباً 400000 افراد) جرمن شہریت رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت سے یہودیوں کا تعلق ان خاندانوں سے تھا جو صدیوں سے جرمنی میں آباد تھے۔ یہ خاندان جرمن زبان کو اپنی بنیادی زبان کے طور پر بولتے تھے۔ بیشتر خود کو جرمن تصور کرتے تھے۔ بعض صورتوں میں، انہوں نے غیر یہودیوں میں شادی کی تھیں۔

علاوہ ازیں، تقریباً 100,000 یہودیوں کے پاس جرمن شہریت نہیں تھی۔ یہ وہ یہودی تھے جن کے خاندانوں نے حالیہ دہائیوں میں جرمنی ہجرت کی تھی۔ بیشتر مشرقی یورپ سے آئے تھے۔ ان میں سے بھی بعض یہودی جرمن معاشرے میں اچھی طرح ضم ہو گئے تھے۔ دوسرے اپنی روایات کے ساتھ الگ الگ تارکین وطن کمیونٹیز میں رہ رہے تھے۔ ان کمیونٹیز کے یہودی بنیادی طور پر یدیش بولتے تھے، جو کہ وسطی اور مشرقی یورپ میں یہودیوں کے مابین استعمال ہونے والی زبان تھی۔

اگرچہ جرمنی میں تمام یہودیوں کا پس منظر ایک جیسا نہیں تھا، جرمن یہودیوں میں اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت کچھ مشترک تھا۔ کچھ خصوصیات جرمن-یہودی زندگی کے بارے میں مختص ہیں۔ انہوں نے یہودی آبادی کو باقی جرمن معاشرے سے تھوڑا سا الگ کر دیا۔

نازیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے جرمنی میں یہودیوں کی زندگی کیسی تھی؟

  • یہودیوں کی اکثریت (تقریباً 70فی صد) ایسے بڑے شہروں میں رہتی تھی جن کی آبادی 100,000 سے زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں، تقریباً 50فی صد غیر یہودی جرمن ایسے قصبوں میں رہتے تھے جن کی آبادی 10,000 سے کم تھی۔ اس کے باوجود، کچھ یہودی چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہتے تھے۔
  • بہت سے یہودی شاذ و نادر ہی یا کبھی کسی عبادت گاہ میں نہیں جاتے تھے۔ لیکن، زیادہ تر اپنی یہودیت کی مذہبی تعطیلات منانا جاری رکھے ہوئے تھے۔ جرمنی میں یہودیوں کی ایک اقلیت سختی سے یہودی مذہبی رسومات پر عمل پیرا رہی۔
  • بعض یہودی غریب تھے، جبکہ زیادہ تر یہودی مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ بہت سے لوگ چھوٹے کاروباروں میں کام کرتے تھے یا ان کے مالک تھے۔ یہودی درزیوں، سرکاری ملازمین، ڈاکٹرز، وکلاء، صحافیوں، بینک کلرکس، فیکٹری ورکرز، پروفیسرز اور اساتذہ کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ چند ایک امیر کاروباری مالکان تھے۔
  • بہت سے یہودی خود کو ایک مذہبی گروپ کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ جرمن تھے جو یہودیت پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے خود کو ایک نسلی گروپ کے طور پر دیکھتے تھے۔ وہ یہودی تھے جو جرمنی میں رہتے تھے۔

جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے باوجود یہودیوں کو جرمنی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر، تمام جرمنوں کو یقین نہیں تھا کہ یہودی جرمن ہو سکتے ہیں۔ کچھ گروپس نے، جن میں یونیورسٹی کے بہت سے طلباء کے کلب بھی شامل ہیں، یہودیوں کی رکنیت پر پابندی لگا دی۔ نازی پارٹی سمیت کچھ سیاسی جماعتیں کھلم کھلا یہود مخالف تھیں۔ پریس میں یہودیوں کے منفی دقیانوسی تصورات سامنے آئے۔

اہم تاریخیں:

1871
یہودیوں کی آزادی

جب 1871 میں جرمنی ایک قوم کے طور پر متحد ہو گیا، تو جرمنی بھر میں رہنے والے یہودیوں کو شہریت کے مکمل حقوق مل گئے۔ یہ یہودیوں کی آزادی کہلاتی ہے۔ جرمنی میں یہودیوں کے لیے اس کا مطلب ہے کہ وہ قانون کے سامنے برابر کے شہری بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہودی کہاں رہ سکتے ہیں اور کون سی ملازمتیں رکھ سکتے ہیں اس پر مزید کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ یہودیوں کی آزادی پورے یورپ میں سیاسی زندگی اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کے وسیع مجموعے کا حصہ ہے۔ 19ویں صدی میں، زیادہ سے زیادہ یورپی باشندوں  نے مذہب اور دیگر حقوق کی آزادی کو قبول کیا۔ یہ اس بات کی ایک نئی، زیادہ جامع، فہم کی طرف لے جانے والی بات ہے کہ شہری ہونے کا کیا مطلب ہے۔ اپنی نئی قانونی مساوات کے باوجود، یہودیوں کو پورے یورپ میں اب بھی تعصب اور امتیاز کا سامنا ہے۔

1914-1918
پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں کا لڑنا

1914 کے موسم گرما میں، جرمنی پہلی جنگ عظیم میں داخل ہوا۔ اس جنگ میں کم از کم 100,000 جرمن-یہودیوں نے فوجی خدمات انجام دیں۔ ان یہودیوں کی اکثریت فرنٹ لائن پر لڑی۔ جنگ کے اختتام تک، ان میں سے 12,000 اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے۔

اس کے باوجود، بعض جرمن دعوی کرتے ہیں کہ یہودی بزدل ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ یہودیوں نے اپنے عسکری فرائض سے غفلت برتی۔ جب جرمنی نومبر 1918 میں پہلی جنگ عظیم ہارا تو بہت سے جرمن ششدر رہ گئے۔ کچھ یہ ماننے سے انکاری تھے کہ جرمنی واقعی جنگ ہار چکا ہے۔ بلکہ، وہ سازشی نظریہ پر یقین رکھتے ہیں، وہ لوگ جو اس نظریے کو تسلیم کرتے ہیں، دعوی کرتے ہیں کہ جرمنی کو عسکری طور پر شکست نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ، وہ اصرار کرتے ہیں کہ یہودیوں سمیت، اندرونی دشمنوں نے جرمنی کے ساتھ غداری کی تھی۔ وہ اس نظریہ کو "پیٹھ میں چھرا گھونپنا" کہتے ہیں۔ یہودیوں کے متعلق دیگر منفی دقیانوسی نظریات کی طرح، پیٹھ میں چھرا گھونپنے والا من گھڑت فسانہ بالکل باطل ہے۔

1922
البرٹ آئن سٹائن نے نوبل انعام حاصل کیا

جرمن یہودی ماہر طبیعیات البرٹ آئن سٹائن کو 1921 کا نوبل انعام برائے طبیعیات دیا گیا۔ انہیں سرکاری طور پر 1922 میں ایوارڈ ملا۔ آئن سٹائن بہت سے کامیاب جرمن یہودی سائنسدانوں میں سے ایک ہے۔ دیگر میں رچرڈ مارٹن ولسٹیٹر شامل ہیں، جنہوں نے 1915 میں کیمسٹری کا نوبل انعام جیتا تھا، اور جیمز فرینک، جنہوں نے 1925 میں طبیعیات کا نوبل انعام جیتا تھا۔