ہدف بننے والوں کی اقسام: ایک جائزہ
اگرچہ نازیوں کا اصل ہدف یہودی تھے تاہم نازیوں اور اُن کے حلیفوں نے نسلی اور نظریاتی وجوہات کی بنا پردوسرے گروپوں پربھی تشدد کیا۔ جرمنی میں نازیوں کے امتیازی رویے کے اولین اہداف میں سیاسی مخالفین شامل تھے جو بنیادی طور پر کمیونسٹ، سوشلسٹ، سوشل ڈیموکریٹ اور مزدور یونینوں کے لیڈر تھے۔ 1933 میں نازیوں نے ھزاروں جرمن سیاسی قیدیوں کیلئے پہلا حراستی کیمپ "ڈاکا" قائم کیا۔ نازیوں نے اُن مصنفوں اور فنکاروں کو بھی اذیتیں دیں جن کے فن پاروں کو وہ تخریبی گردانتے تھے یا پھر جو یہودی تھے۔ اُنہیں گرفتار کیا گیا اور اُن پر معاشی پابندیوں اور امتیازی سلوک کے دوسرے حربے بھی آزمائے گئے۔
نازیوں نے روما (خانہ بدوشوں) کو بھی نسلی بنیادوں پر نشانہ بنایا۔ 1935 کے نیورمبرگ قوانین کی (جرمن قوانین جن میں نسلی نظریات کے مطابق خون کے اعتبار سے جرمن ہونے کی وضاحت کی گئی) قانونی وضاحت میں بعد میں روما کو بھی شامل کر لیا گیا۔ نازیوں نے روما کو نازی فریم ورک میں کام چور اور میل جول سے کترانے والے افراد قرار دیا جن کا معاشرے کو کوئی فائدہ نہ تھا اور وہ سماجی اعتبار سے قطعی ناموذوں تھے۔ جن روما افراد کو لوڈز گھیٹو جلاوطن کیا گیا وہ پولینڈ کے چیلمنو کیمپ میں گشتی گیس گاڑیوں میں ہلاک کئے جانے والے اولین افراد میں شامل تھے۔ نازیوں نے 20 ھزار سے زائد روما لوگوں کو آشوٹز۔ برکینو کیمپ جلاوطن کر دیا جہاں اُن میں سے بیشتر کو گیس چیمبرز میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
نازیوں نے پولینڈ اور دوسرے سلاوک افراد کو کم تر اور گھٹیا گردانا اور اُنہیں غلام بنایا، جبری مشقت پر معمور کیا اور بالآخر اُنہیں ختم کر دیا۔ پولینڈ کے افراد جن کو نظریاتی طور پر خطرناک خیال کیا گیا (اِن میں ھزاروں کی تعداد میں دانشور اور کیتھولک پادری شامل تھے) اُنہیں اے بی۔ ایکشن نامی ایک کارروائی کے دوران قتل کیلئے ہدف بنایا گیا۔ 1939 سے 1945 کے دوران کم سے کم 15 لاکھ پولش شہریوں کو جبری مشقت کیلئے جلا وطن کر کے جرمنی بھیجا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو نازی حراستی کیمپوں میں بھی قید کیا گیا۔ اندازہ ہے کہ جرمنوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کم سے کم 19 لاکھ غیر یہودی پولش افراد کو قتل کر دیا تھا۔
جرمن مقبوضہ سوویت یونین میں کومی سار آرڈر(مسلح افواج کی ہائی کمان کی طرف سے جرمن فوج کو جاری کیا گیا حکم نامہ) کے تحت ریڈ آرمی کے سیاسی عہدیداروں کو ہلاک کیا۔ 1942-1941 کے موسم خزاں اور موسم سرما کے دوران جرمن فوجی حکام اور جرمن سیکورٹی پولیس نے سوویت جنگی قیدیوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی نسلی تعصب پر مبنی ایک پالیسی پراکٹھے کام کیا۔ اِن میں یہودی، ایشیائی نقوش کے حامل افراد اور اعلٰی سیاسی اور فوجی لیڈروں کو منتخب کر کے گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا۔ تقریباً 30 لاکھ دوسرے افراد کو مناسب پناہ، خوراک یا ادویات کے بغیر عارضی کمپوں میں اِس ارادے سے رکھا گیا کہ وہ ایسی سہولتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے خود بخود موت کا شکار ہو جائیں گے۔
نازیوں نے ایسے عیسائی چرچ لیڈروں کو بھی اذیت ناک قید میں ڈالا جو نازی ازم کی مخالفت کرتے تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہووا وٹنس عقیدے کے اُن ھزاروں افراد کو بھی قید کیا گیا جنہوں نے ایڈولف ہٹلر کو سلوٹ نہیں کیا یا پھر جرمن فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کیا۔ نام نہاد "یوتھینیسیا" پروگرام کے تحت نازیوں نے ایک اندازے کے مطابق ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار 2 لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ نازیوں نے ہم جنس پرست مردوں کو بھی اذیت دی جن کے رویے کو اُنہوں نے جرمن قوم کی بقا کیلئے رکاوٹ قرار دیا۔ نازیوں نے اُن افراد کو بھی قید میں ڈال دیا جن کے بارے میں اُنہوں نے حراستی کیمپوں میں عادی ہم جنس پرست کی اصطلاح استعمال کی اور اِس کے ساتھ ساتھ اُن ھزاروں افراد کو بھی جیل میں بند کیا جن پراُنہوں نے غیر سماجی یا مجرمانہ رویے کا الزام لگایا۔
نازی نصب العین کے تحت دشمنوں کی کئی اقسام کی نشادہی کی گئی اور پھر لاکھوں کی تعداد میں افراد کو اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا گیا جن میں یہودی اور غیر یہودی دونوں شامل تھے۔