تعارف

جرمن فزیشن اور ایس ایس کیپٹن جوزف مینگیلے۔

جوزف مینگلے ہولوکاسٹ کی سب سے بدنام شخصیات میں سے ایک ہے۔ آشوٹز میں اس کی خدمات اور اس کے وہاں کیے گئے طبی تجربات نے اسے اس کیمپ میں کیے گئے جرائم کا سب سے معروف مجرم بنایا۔ اس کی جنگ کے بعد چھپ کر گزاری گئی زندگی نازی جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں بین الاقوامی ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔

اپنی بدنامی کی وجہ سے مینگلے متعدد مشہور کتابوں، فلموں اور ٹیلی ویژن شوز کا موضوع رہا ہے۔ ان میں سے کئی عکاسیاں مینگلے کے جرائم کے اصل حقائق کو مسخ کرتی ہیں اور اسے اس کے تاریخی تناظر سے دور لے جاتی ہیں۔ کچھ لوگ ایک پاگل سائنسدان کے طور پر اس کی عکاسی کرتے ہیں جس نے بغیر کسی سائنسی بنیاد کے افسوسناک تجربات کیے تھے۔

مینگلے کے بارے میں سچائی اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ وہ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ ڈاکٹر اور طبی محقق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں جنگی تجربہ کار بھی تھا۔ وہ اپنے شعبے میں قابل احترام تھا اور جرمنی میں ایک معروف تحقیقی ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔ آشوٹز میں اس کی زیادہ تر طبی تحقیق نے دوسرے جرمن سائنسدانوں کے کام میں معاونت کی۔ وہ ان درجنوں بائیو میڈیکل محققین میں سے تھا جنہوں نے نازی حراستی کیمپوں میں قیدیوں پر تجربات کیے تھے۔ اور وہ ان متعدد طبی پیشہ ور افراد میں سے تھا جو آشوٹز کے گیس چیمبرز میں قتل کیے جانے والے متاثرین کا انتخاب کرتے تھے۔

مینگلے نے نازی دور حکومت میں جرمن سائنس کے اصولوں کے مطابق کام کیا۔ اس کے جرائم سائنس کی وجہ درپیش اس شدید خطرے کی عکاسی کرتے ہیں جب اسے کسی ایسے نظریے کی خدمت میں انجام دیا جائے جو لوگوں کے مخصوص گروہوں کے حقوق، وقار اور حتیٰ کہ انسانیت سے بھی انکار کرتا ہو۔

مینگلے آشوٹز سے قبل  

جوزف مینگلے 16 مارچ، 1911 کو جرمنی کے بویرین شہر گونزبرگ میں پیدا ہوا۔ وہ کارل مینگلے کا سب سے بڑا بیٹا تھا جو کاشتکاری کا سامان تیار کرنے والا ایک خوشحال صنعتکار تھا۔

مینگلے نے متعدد یونیورسٹیوں میں طب اور طبعی بشریات کی تعلیم حاصل کی۔ 1935 میں اس نے میونخ یونیورسٹی سے طبعی بشریات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1936 میں مینگلے نے ریاستی طبی امتحان پاس کیا۔  

1937 میں مینگلے نے فرینکفرٹ، جرمنی میں انسٹی ٹیوٹ برائے موروثی حیاتیات اور نسلی حفظان صحت میں کام کرنا شروع کیا۔ وہاں، وہ ڈائریکٹر ڈاکٹر اوٹمار وان ورشوئر کا اسسٹنٹ تھا۔ ورشوئر جڑواں بچوں پر اپنی تحقیق کے حوالے سے معروف جینیاتی ماہر تھے۔ ورشوئر کی ہدایت کے مطابق مینگلے نے 1938 میں ایک اضافی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔

 نازی نظریے کو اپنانا

مینگلے نے نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے اس کی سرگرم حمایت نہیں کی تھی۔ تاہم 1931 میں اس نے دائیں بازو کی ایک اور پارٹی جرمن نیشنل پیپلز پارٹی کی پیراملٹری شٹالیم میں شمولیت اختیار کی۔ جب نازی ایس اے نے شٹالیم (Stahlhelm) کو ضم کر لیا تو مینگلے 1933 میں نازی SA کا رکن بن گیا، لیکن اس نے 1934 میں اس میں سرگرم حصہ لینا چھوڑ دیا۔

 تاہم، اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران مینگلے نے نسلی سائنس، حیاتیاتی نسل پرستی کے جھوٹے نظریے کو قبول کیا۔ اس کا خیال تھا کہ جرمن حیاتیاتی طور پر دیگر تمام نسلوں کے ارکان سے مختلف اور برتر ہیں۔ نسلی سائنس نازی نظریے کا ایک بنیادی اصول تھا۔ ہٹلر نے نسلی سائنس کا استعمال بعض جسمانی یا ذہنی بیماریوں یا جسمانی خرابیوں والے افراد کی جبری نس بندی کے جواز کے لیے کیا۔ نیورمبرگ کے نسلی قوانین بھی نسلی سائنس پر مبنی تھے جو جرمنوں اور یہودی، سیاہ فام یا خانہ بدوش لوگوں کے درمیان شادی کو غیر قانونی قرار دیتے تھے۔

 1938 میں مینگلے نے نازی پارٹی اور ایس ایس میں شمولیت اختیار کی۔ ایک سائنسدان کے طور پر اپنے کام میں اس نے جرمن "نسل" کی فرضی برتری برقرار رکھنے اور اس میں اضافے کے نازی مقصد کی حمایت کرنے کی کوشش کی۔ مینگلے کے آجر اور سرپرست، ورشوئر نے بھی حیاتیاتی نسل پرستی کو قبول کیا۔ تحقیق کرنے کے علاوہ، ورشوئر اور اس کے عملے — بشمول مینگلے — نے نازی حکام کو ماہرانہ رائے فراہم کی جنہوں نے یہ تعین کرنا تھا کہ آیا افراد نیورمبرگ کے قوانین کے تحت جرمن ہونے کے اہل ہیں یا نہیں۔ مینگلے اور اس کے ساتھیوں نے ان جرمنوں کا بھی جائزہ لیا جن کی جسمانی یا ذہنی حالت انہیں جرمن قانون کے تحت زبردستی نس بندی یا شادی پر پابندی لگانے کا اہل بنا سکتی ہے۔

 مشرقی محاذ پر خدمات

 جون 1940 میں مینگلے کو جرمن فوج وہرماکٹ (Wehrmacht)) میں شامل کیا گیا۔ ایک ماہ بعد اس نے وافن ایس ایس (Waffen-SS) (ایس ایس کی عسکری شاخ) کے لیے طبی خدمات انجام دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا۔ سب سے پہلے اس نے جرمن مقبوضہ پولینڈ میں ایس ایس کے نسل پرستی اور آباد کاری کے مرکزی دفتر (RuSHA) کے لیے کام کیا۔ وہاں مینگلے نے ایس ایس کے ذریعے استعمال کیے گئے معیارات اور طریقوں کا جائزہ لیا تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا جرمن نسل کے ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد نسلی اور جسمانی طور پر جرمن ہونے کے لیے موزوں تھے۔

1940 کے آخر میں مینگلے کو بطور میڈیکل آفیسر ایس ایس ڈویژن "وائکنگ" کی انجینئرنگ بٹالین میں تفویض کیا گیا۔ جون 1941 میں شروع ہونے والے تقریباً 18 ماہ تک اس نے مشرقی محاذ پر انتہائی سفاکانہ لڑائی دیکھی۔ اس کے علاوہ سوویت یونین پر جرمنی کے حملے کے اولین ہفتوں میں مینگلے کی ڈویژن نے ہزاروں یہودی شہریوں کو قتل عام کیا۔ مشرقی محاذ پر مینگلے کی خدمات نے اسے آئرن کراس، سیکنڈ اور فرسٹ کلاس دونوں اور ایس ایس کے کپتان (SS-Hauptsturmführer) پر ترقی دی۔

مینگلے مئی 1943 میں جرمنی واپس چلا گیا۔ اپنی اگلی وافن ایس ایس اسائنمنٹ کا انتظار کرتے ہوئے اس نے اپنے سرپرست ورشوئر کے لیے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ ورشوئر کچھ ہی عرصہ قبل برلن میں Kaiser Wilhelm Institute for Anthropology, Human Genetics, and Eugenics (KWI-A) کا ڈائریکٹر بنا تھا۔

 آشوٹز میں جلاوطنی

30 مئی، 1943 کو ایس ایس نے مینگلے کو آشوٹز میں تعینات کر دیا۔ اس کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ مینگلے نے خود اس اسائنمنٹ کی درخواست کی تھی۔ اس نے آشوٹز - برکیناؤ میں کیمپ کے ایک معالج کے طور پر کام کیا۔ آشوٹز - برکیناؤ آشوٹز کیمپوں میں سب سے بڑا کیمپ تھا اور یورپ بھر سے جلاوطن یہودیوں کے لیے قتل گاہ کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔ دیگر فرائض کے علاوہ مینگلے کے پاس برکیناؤ کے Zigeunerlager  (لغوی طور پر، "خانہ بدوش کیمپ") کی ذمہ داری تھی۔ 1943 کے آغاز سے تقریباً 21,000 خانہ بدوش مردوں، عورتوں اور بچوں کو (جنہیں طنزیہ طور پر زیگنر (Zigeuner) یا "خانہ بدوش" کہا جاتا تھا) آشوٹز بھیجا گیا اور زگنرلاگر (Zigeunerlager) میں قید کر دیا گیا۔ جب یہ خاندانی کیمپ 2 اگست 1944 کو ختم کر دیا گیا تو مینگلے نے 2,893 رومانی قیدیوں کے انتخاب میں حصہ لیا جنہیں برکیناؤ گیس چیمبرز میں قتل کیا جانا تھا۔ اس کے فوراً بعد اسے آشوٹز کیمپ کمپلیکس کے حصے کے لیے چیف فزیشن مقرر کیا گیا جسے آشوٹز- برکیناؤ یا آشوٹز II کہا جاتا تھا۔ نومبر 1944 میں اسے ایس ایس کے لیے برکیناؤ ہسپتال میں تعینات کر دیا گیا۔

"موت کا فرشتہ": قتل کرنے کے لیے قیدیوں کا انتخاب

اپنے کیمپ کے فرائض کے جزو کے طور پر آشوٹز کے طبی عملے نے نام نہاد انتخاب کیے۔ انتخاب کا مقصد ایسے افراد کی نشاندہی کرنا تھا جو کام کرنے سے قاصر تھے۔ ایس ایس نے ایسے افراد کو بیکار سمجھا اور اس لیے انہیں قتل کر دیا۔ جب یہودیوں کی ٹرانسپورٹ برکیناؤ پہنچی تو کیمپ کے طبی عملے نے کچھ جسمانی طور پر موذوں بالغ افراد کو حراستی کیمپ میں جبری مشقت کرنے کے لیے منتخب کیا۔ وہ لوگ جنہیں مزدوری کے لیے منتخب نہیں کیا گیا، بشمول بچے اور بوڑھے، انہیں گیس چیمبرز میں قتل کر دیا گیا۔

آشوٹز اور دیگر حراستی کیمپوں میں کیمپ کے معالجین نے بھی کیمپ کے مریض خانوں اور بیرکوں میں وقفہ وار انتخاب کروایا۔ انہوں نے یہ انتخاب ان قیدیوں کی شناخت کے لیے کیے جو زخمی ہوئے تھے یا کام کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ بیمار یا کمزور تھے۔ ایس ایس نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے، جن میں مہلک انجیکشن اور گیس سے ہلاکت بھی شامل ہے۔ مینگلے نے معمول کے مطابق ایسے انتخاب کو برکیناؤ میں انجام دیا، جس کی وجہ سے کچھ قیدی اسے "موت کا فرشتہ" کہنے لگے۔ قیدی گیزیلا پرل نے، جو برکیناؤ میں ایک یہودی گائناکالوجسٹ تھیں، بعد میں یاد دلایا کہ کس طرح خواتین کے ہسپتال میں مینگلے کی ظاہری شکل نے قیدیوں کو دہشت سے بھر دیا تھا:

ہمیں کسی بھی چیز سے زیادہ ان دوروں سے ڈر لگتا تھا، کیونکہ[ . . .] ہمیں کبھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کسے زندہ رہنے کی اجازت دی جائے گی [. . . .]  اسے ہمارے ساتھ ہر وہ کام کرنے کی اجازت تھی جس میں اسے خوشی ملتی۔

گیزیلہ پرل کی یادداشت کے مطابق | جب میں آشوٹز میں ڈاکٹر تھی۔1

جنگ عظیم دوم کے بعد مینگلے اپنے لیے کام کرنے والے معالج قیدیوں اور اس کے طبی تجربات سے بچ جانے والے قیدیوں کی کہانیوں کی وجہ سے آشوٹز میں اپنے کام کے لیے بدنام ہو گیا۔

 مینگلے ان 50 معالجین میں سے ایک تھا جنہوں نے آشوٹز میں خدمات انجام دیں۔ وہ نہ تو آشوٹز کیمپ کمپلیکس میں اعلیٰ درجے کا ڈاکٹر تھا اور نہ ہی وہاں کے دوسرے ڈاکٹروں کا کمانڈر تھا۔ اس کے باوجود اس کا نام اب تک ان تمام ڈاکٹروں میں سب سے زیادہ بدنام ہے جنہوں نے آشوٹز میں خدمات انجام دیں۔ اس کی ایک وجہ مینگلے کی ریمپ پر بار بار موجودگی تھی جہاں انتخاب ہوتا تھا۔ جب مینگلے خود انتخاب کرنے کا فرض انجام نہیں دیتا تھا، تب بھی وہ اکثر ریمپ پر نظر آتا تھا، اور اپنے تجربات کے لیے جڑواں بچوں اور برکیناؤ کے مریض خانے کے لیے معالج تلاش کیا کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے زندہ بچ جانے والوں نے جو آشوٹز پہنچنے پر انتخاب سے گزرے تھے، یہ فرض کیا کہ مینگلے ہی وہ ڈاکٹر تھا جو انہیں منتخب کرتا تھا۔ تاہم، مینگلے نے یہ کام اپنے ساتھیوں سے زیادہ کثرت سے نہیں کیا۔

لیئو شنائڈرمین آش وٹز کیمپ میں اپنی آمد، انتخاب کا عمل اور خاندان سے علیحدگی کی صورت حال بتاتے ہیں

 آشوٹز میں بائیو میڈیکل محقق

 ایس ایس نے جرمن بائیو میڈیکل محققین کو حراستی کیمپوں میں غیر اخلاقی اور اکثر اوقات جان لیوا انسانی تجربات کرنے کا اختیار دیا۔ آشوٹز نے دوسرے مختلف کیمپوں میں انسانی تجربات کے لیے قیدی فراہم کیے۔ اس نے مختلف قسم کے انسانی تجربات کی جگہ کے طور پر بھی کام کیا۔ اس کی وجہ وہاں بھیجے جانے والے قیدیوں کی تعداد تھی۔ ایس ایس نے مختلف قومی اور نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے 1.3 ملین مرد، خواتین اور بچوں کو آشوٹز بھیجا۔ مخصوص معیار پر پورا اترنے والے انسان مریضوں کو محققین دوسرے کیمپوں کے مقابلے آشوٹز میں زیادہ آسانی سے تلاش کر سکتے تھے۔

مینگلے ان ایک درجن سے زائد ایس ایس طبی عملے کے ارکان میں سے ایک تھا جنہوں نے آشوٹز میں قید لوگوں پر تجربات کیے تھے۔ ان ڈاکٹروں میں شامل تھے:

  • ایڈوارڈ ورتھس، آشوٹز کے معالجین کا سربراہ؛
  • کارل کلابرگ، بانجھ پن کے علاج کا معروف ماہر؛
  • ہورسٹ شومن، جس نے نازی یوتھنیزیا پروگرام کے دوران ہزاروں معذور مریضوں کو گیس کے ذریعے جان سے مارا۔
  • ایس ایس معالج ہیلمٹ ویٹر، جس نے آئی جی فاربن (IG Farben) کے Bayer ذیلی ادارے کے لیے ڈاخاؤ، آشوٹز اور گوزن (Gusen) حراستی کیمپوں میں قیدیوں پر ادویات کی جانچ کی؛
  • جوہان پال کریمر، اناٹومی کا ایک پروفسر۔

ان ڈاکٹروں نے آشوٹز میں اپنی تقرری کو اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے ایک دلچسپ موقع کے طور پر دیکھا۔

انجام دیے جانے والے تجربات

حراستی کیمپوں میں ہونے والے تجربات نے بہت سے متاثرین کو مستقل طور پر معذور کر دیا یا ان کی موت ہو گئی۔ کچھ تجربات میں موت ہی متاثرین کے لیے مطلوبہ نتیجہ تھی۔ آشوٹز میں تجربات کرنے والے طبی ماہرین نے قیدیوں کی رضامندی نہیں لی اور نہ ہی انہیں ان کے علاج یا ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا۔ آشوٹز میں انجام دیئے جانے والے تجربات کی اقسام میں شامل ہیں:

  • بڑے پیمانے پر نس بندی کی جانچ کے طریقے؛
  • قیدیوں کو زخم دینا یا ان کو بیماریوں سے متاثر کرنا تا کہ اثرات اور جانچ کے علاج کا مطالعہ کیا جا سکے۔
  • تحقیقی مقاصد کے لیے یا طبی پیشہ ور افراد کو تربیت دینے کے لیے مریضوں پر غیر ضروری سرجری اور طریقہ کار کا انعقاد؛
  • بشریات اور طبی تحقیق کے لیے قیدیوں کو قتل کرنا اور اعضاء کو الگ کرنا۔
  • آشوٹز میں مینگلے کے تجربات

آشوٹز میں اپنے معمول کے فرائض سے الگ مینگلے نے قیدیوں پر تحقیق اور تجربات کیے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے سرپرست ورشوئر نے مینگلے کیلئے آشوٹز کی اسائنمنٹ کا اہتمام کیا ہو تاکہ قیصر ولہیم انسٹی ٹیوٹ فار اینتھراپولوجی، ہیومن جینیٹکس، اور یوجینکس (KWI-A) کی تحقیق میں معاونت مل سکے۔ آشوٹز میں اپنے پورے وقت کے دوران مینگلے نے جرمنی میں اپنے ساتھیوں کو خون، جسم کے اعضاء، عضلات، ڈھانچے اور فیٹس بھیجے۔ یہ سب آشوٹز کے قیدیوں سے لیے گئے تھے۔ مینگلے نے اپنے ساتھیوں کے تحقیقی منصوبوں میں قیدیوں کا استعمال کرتے ہوئے ان کے لیے مطالعہ اور تجربات کر کے مدد فراہم کی۔

 KWI-A کے ساتھ اپنے کام کے علاوہ مینگلے نے آشوٹز کے قیدیوں پر اپنے تجربات بھی کیے۔ اسے نتائج شائع ہونے کے بعد یونیورسٹی کی پروفیسر شپ کا اہل بننے کے لیے اسناد کے حصول کی امید تھی۔

آشوٹز میں اپنی خدمات کے دوران مینگلے نے متعدد بیرکوں میں واقع ایک تحقیقی کمپلیکس کا انتظام کیا۔ اس نے اپنے عملے کا انتخاب ان قیدیوں میں سے کیا جو طبی پیشہ ور تھے۔ مینگلے اپنی تحقیق کے لیے جدید ترین آلات اور سازوسامان حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور حتیٰ کہ ایک پیتھالوجی لیبارٹری بھی قائم کی۔

 تحقیقی اہداف

مینگلے کی اپنی تحقیق اور KWI-A کے لیے کی جانے والی اس کی تحقیق عموماً اس بات پر مرکوز تھی کہ جینز مخصوص جسمانی اور ذہنی خصلتوں میں کیسے نشوونما پاتے ہیں۔ جب اخلاقی طور پر کیا جائے تو یہ جینیاتی تحقیق کا ایک جائز اور اہم شعبہ ہے۔ تاہم، مینگلے، ورشوئر اور ان کے ساتھیوں کا کام نسل کی ایک نیم سائنسی تھیوری پر ان کے یقین سے متاثر تھا جو نازی نظریے کے لیے بنیادی تھا۔ اس نظریے کے مطابق انسانی نسلیں جینیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس نے نسلوں کی ایک درجہ بندی تشکیل دی اور اس بات پر زور دیا کہ "کمتر" نسلیں جینیاتی طور پر "اعلیٰ" نسلوں کے اراکین کے مقابلے میں منفی خصلتیں ظاہر کرنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔ ان منفی موروثی خصلتوں میں مبینہ طور پر صرف جسمانی اور ذہنی بیماریوں اور نقائص سے کچھ زیادہ ہی شامل تھا۔ ان میں مبینہ طور پر سماجی ناقابل قبول یا غیر اخلاقی رویے بھی شامل تھے، جیسا کہ آوارہ گردی، عصمت فروشی، اور جرائم۔ نسل کے غلط نظریے کے مطابق نسلوں کے درمیان شادی نے منفی خصلتوں کو "برتر" نسلوں تک پہنچایا اور انہیں کمزور کیا۔

مینگلے نے مخصوص جسمانی اور بائیو کیمیکل نشانات کی شناخت کرنے کی کوشش کی جو مخصوص نسلوں کے ارکان کو یقینی طور پر شناخت کر سکیں۔ مینگلے اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ جرمن لوگوں کی نسلی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے اس طرح کے نشانات کی تلاش بہت ضروری ہے۔ مینگلے اور اس کے ساتھیوں کے لیے تحقیق کی اہمیت نے لوگوں — اس معاملے میں آشوٹز کے قیدی — جنہیں وہ نسلی طور پر کمتر سمجھتے تھے، پر نقصان دہ اور مہلک تجربات کرنے کا جواز پیش کیا۔

مینگلے کے متاثرین کون تھے؟

مینگلے نے اپنے متاثرین بنیادی طور پر دو نسلی گروہوں سے نکالے: رومانی اور یہودی۔ یہ گروہ نازی جرمنی میں بائیو میڈیکل محققین کے لیے خاص دلچسپی کے حامل تھے۔ نازی نظریہ روما اور یہودیوں دونوں کو "کم تر انسان" اور جرمن "نسل" کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ اس وجہ سے نازی سائنسدانوں نے طبی اخلاقیات کو ان گروہوں کے ارکان پر لاگو کرنے پر غور نہیں کیا۔

جب مینگلے نے آشوٹز - برکیناؤ میں خدمات انجام دیں تو وہاں 20,000 سے زیادہ رومانی قید تھے اور لاکھوں یہودی ٹرانسپورٹس پر وہاں پہنچے تھے۔ دنیا میں کہیں اور سائنسدانوں کو ان گروہوں کے اتنے زیادہ ارکان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی تھی جو ایک جگہ پر مرکوز ہوں اور کہیں بھی ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جس طرح چاہیں انسانوں پر تجربات کر سکتے۔ مینگلے نے ایک ساتھی سے کہا کہ آشوٹز - برکیناؤ میں انسانی تجربات کے مواقع سے فائدہ نہ اٹھانا جرم ہو گا۔

روما

اپنے طبی تجربات کے لیے روما کو مریض کے طور پر منتخب کرنے کے علاوہ مینگلے نے زیگنرلاگر میں رومانی مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک بشریاتی مطالعہ کیا۔ جب کیمپ میں رومانی بچوں میں نوما (Noma) (منہ کی گینگرین) نامی بیماری پھیل گئی تو اس نے قیدی معالجین کو اس کا مطالعہ کرنے کا کام سونپا۔ نوما ایک بیکٹریا سے پھیلنے والی بیماری ہے جو بنیادی طور پر ناکافی غذائیت کا شکار بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ تاہم، مینگلے کا خیال تھا کہ آشوٹز میں رومانی بچے کیمپ کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنی موروثی وجوہات کی بنا پرنوما کا شکار تھے۔ قیدی ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ نوما کا علاج کیسے کیا جائے، جو کہ عام طور پر مہلک تھا۔ اس کے باوجود تمام بچے جو ٹھیک ہو گئے تھے، بالآخر گیس چیمبر میں قتل کر دیے گئے۔

جڑواں

1930 کی دہائی میں جڑواں بچے انسانی جینیاتی تحقیق کا ایک بڑا مرکز تھے۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے ورشوئر اور دیگر بائیو میڈیکل محققین بیماریوں کی موروثی بنیادوں کا مطالعہ کرنے کے لیے جڑواں بچوں کا استعمال کرتے تھے۔ ان اولین محققین نے جڑواں بچوں یا ان کے والدین کی رضامندی حاصل کی تھی، لیکن محققین کے لیے ان مطالعات کے لیے بہت سے جڑواں بچوں کو شامل کرنا مشکل تھا۔ آشوٹز میں مینگلے نے وہاں قید رومانی قیدیوں میں سے اور گاڑیوں کے ذریعے لائے جانے والے سینکڑوں جڑواں بچوں کے جوڑے جمع کیے۔ اتنی بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کا مطالعہ اور تجربہ کرنے والا آج تک کوئی محقق نہیں تھا۔

مینگلے نے اپنے عملے کو جڑواں بچوں کی لاشوں کے ہر پہلو کی پیمائش اور ریکارڈ درج کرنے کا حکم دیا۔ اس نے جڑواں بچوں سے بڑی مقدار میں خون نکالا اور بعض اوقات ان پر دیگر تکلیف دہ طریقہ کار بھی انجام دیا۔

 [...] وہ ہمیں پورے جسم پر انجیکشن لگاتے تھے۔ ان انجیکشن کے نتیجے میں میری بہن بیمار پڑ گئی۔ شدید بیماری کے نتیجے میں اس کی گردن پھول گئی۔ انہوں نے اسے ہسپتال بھیجا اور مخدوش حالات میں بیہوشی کی دوا کے بغیر اس کا آپریشن کیا۔ (…)

کیمپ نمبر ایک کے Lorenc Andreas Menasche 12090 کی داستان سے۔2

مینگلے نے ایک ہی وقت میں جڑواں بچوں کو بھی قتل کیا تا کہ ان کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکے۔ پوسٹ مارٹم کا مطالعہ کرنے کے بعد مینگل نے ان کے کچھ اعضاء KWI-A کو بھیجے۔

پیدائشی بے ضابطگیوں والے افراد

جب اس نے آشوٹز - برکیناؤ میں ریمپ پر آنے والے یہودیوں کا انتخاب انجام دیا تو مینگلے نے جسمانی بے ضابطگیوں والے لوگوں کو تلاش کیا۔ ان لوگوں میں پستہ قد، بڑے قد کے حامل افراد، یا ایسے افراد شامل تھے جن کے چپٹے پاؤں تھے۔ مینگل نے ان لوگوں کا مطالعہ کیا اور پھر انہیں قتل کر دیا۔ اس نے ان کی لاشیں محققین کے مطالعہ کے لیے جرمنی بھیج دیں۔

مینگلے نے ہیٹروکرومیا (Heterochromia) رومانی اور یہودیوں کو بھی تلاش کیا، ایک ایسی حالت جس میں ایک شخص کی آنکھیں رنگ میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ KWI-A میں مینگلے کے ساتھیوں میں سے ایک خاص طور پر اس حالت میں دلچسپی رکھتا تھا۔ مینگلے نے آشوٹز میں ہیٹروکرومیا کے شکار افراد کو قتل کیا تھا اور ان کی آنکھیں اس ساتھی کو بھیجی تھیں۔

 بچے

اقوام متحدہ کے اہلکار حراستی کیمپ میں زندہ بچ جانے والے 11 سالہ بچے کو حفاظتی ٹیکے لگا رہے ہیں جو آشوٹز کیمپ میں طبی تجربات کا شکار ہوا۔

مینگلے کے طبی تجربات کے زیادہ تر متاثرین بچے تھے۔ تجربات کے لیے مینگلے کے منتخب کردہ بچے دوسرے قیدیوں سے الگ بیرکوں میں رہتے تھے اور انھیں کچھ بہتر خوراک اور علاج ملتا تھا۔ مینگلے بچوں کی طرف دوستانہ رویہ رکھتا تھا۔ مینگلے کے تجربات سے بچ جانے والے موشے اوفر (Moshe Ofer) نے 1985 میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ

[مینگلے] ایک اچھے چچا کے طور پر ہم سے ملنے آیا، ہمارے لیے چاکلیٹ لے کر آیا۔ سکیلپل یا سرنج لگانے سے پہلے وہ کہتا تھا کہ: 'ڈرو مت، تمہیں کچھ نہیں ہو گا...' ...اس نے کیمیائی مواد کا انجکشن لگایا، اور ٹبی کی ریڑھ کی ہڈی پر سرجری کی۔ تجربات کے بعد وہ ہمارے لیے تحائف لے کر آتا تھا...بعد کے تجربات کے دوران اس نے ہمارے سروں میں سوئیاں ڈالی تھیں۔ پنکچر کے نشانات اب بھی نظر آتے ہیں۔ ایک دن وہ ٹبی کو لے گئے۔ میرا بھائی کافی دن تک واپس نہ آیا۔ جب اسے واپس لایا گیا تو اس کے سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس نے میری بانہوں میں دم توڑا۔3  

مینگلے نے بچوں کو اپنے تجربات کے لیے بھی استعمال کیا اور KWI-A کے کام میں مدد کے لیے بھی۔ اس نے بچوں اور نوزائیدہ بچوں کی آنکھوں میں اپنے ایک ساتھی کی طرف سے فراہم کردہ مادہ ڈال کر آنکھوں کے رنگ کی نشوونما کے مطالعہ میں تعاون کیا۔ نتائج جلن اور سوجن سے لے کر اندھے پن اور یہاں تک کہ موت تک تھے۔

ایک قیدی نے جسے مینگلے کے تجربات کے لیے منتخب کردہ یہودی جڑواں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے تفویض کیا گیا تھا، بعد میں بتایا کہ بچوں نے ان کے علاج پر جذباتی اور جسمانی طور پر کیا رد عمل ظاہر کیا:

خون کے نمونے پہلے انگلیوں سے اور پھر شریانوں سے لیے گئے، بعض صورتوں میں ایک ہی متاثرہ فرد سے دو یا تین بار۔ بچوں نے چیخ ماری اور چھونے سے بچنے کے لیے خود کو چھپانے کی کوشش کی۔ اہلکاروں نے زبردستی کی۔ (…) ان کی آنکھوں میں قطرے بھی ڈالے گئے….بچوں کے کچھ جوڑوں کی دونوں آنکھوں میں قطرے ڈالے گئے اور کچھ کو صرف ایک میں۔ ….ان مشقوں کے نتائج متاثرین کے لیے تکلیف دہ تھے۔ وہ پلکوں کی شدید سوجن کا شکار تھے، ایک جلن کا احساس ہوتا تھا….4

انصاف سے بچنا

جنوری 1945 میں جب سوویت ریڈ آرمی مغربی پولینڈ سے گزر رہی تھی تو مینگلے کیمپ کے باقی ایس ایس اہلکاروں کے ساتھ آشوٹز سے فرار ہو گیا۔ اس نے آئندہ چند مہینے گروس - روزن حراستی کیمپ اور اس کے ذیلی کیمپوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے گزارے۔ جنگ کے آخری دنوں میں اس نے جرمن فوج کی وردی پہنی اور فوجی یونٹ میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد یونٹ نے امریکی فوجی دستوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

 ایک جرمن فوجی افسر کے طور پر مینگلے ایک امریکی جنگی قیدی بن گیا۔ امریکی فوج نے اسے اگست 1945 کے اوائل میں رہا کر دیا، اس بات سے بے خبر کہ مینگلے کا نام پہلے سے ہی مطلوب جنگی مجرموں کی فہرست میں شامل تھا۔

 1945 کے آخر سے 1949 کے موسم بہار تک مینگلے نے روزن ہائیم، باویریا کے قریب فارم ہینڈ کے طور پر ایک جھوٹے نام سے کام کیا۔ یہاں سے وہ اپنے خاندان سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب امریکی جنگی جرائم کے تفتیش کاروں کو آشوٹز میں مینگلے کے جرائم کا علم ہوا تو انہوں نے اسے ڈھونڈنے اور گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، مینگلے کے خاندان کے جھوٹ کی بنیاد پر تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینگلے مر چکا ہے۔ اسے گرفتار کرنے کی امریکی کوشش نے مینگلے کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ وہ جرمنی میں محفوظ نہیں ہے۔ اپنے خاندان کی مالی مدد سے مینگلے جولائی 1949 میں ایک اور جھوٹے نام سے ارجنٹائن ہجرت کر گیا۔  

1956 تک مینگلے ارجنٹائن میں کافی بہتر طور پر مستحکم ہو چکا تھا اور خود کو اتنا محفوظ محسوس کرتا تھا کہ اس نے ہوزے مینگلے کے طور پر ارجنٹائن کی شہریت حاصل کر لی۔ تاہم، 1959 میں اسے معلوم ہوا کہ مغربی جرمن پراسیکیوٹرز جانتے ہیں کہ وہ ارجنٹائن میں ہے اور اس کی گرفتاری کی کوشش کر رہے ہیں۔ مینگلے نے پیراگوئے ہجرت کی اور وہاں کی شہریت حاصل کی۔ مئی 1960 میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنٹوں نے ارجنٹائن میں ایڈولف آئچ من کو اغوا کر لیا اور مقدمہ چلانے کے لیے اسرائیل لے گئے۔ یہ درست اندازہ لگاتے ہوئے کہ اسرائیلی بھی اسے ڈھونڈ رہے تھے، مینگلے پیراگوئے سے فرار ہو گیا۔ جرمنی میں اپنے خاندان کے تعاون سے اس نے اپنی باقی زندگی برازیل کے ساؤ پالو کے قریب ایک فرضی نام کے تحت گزاری۔ 7 فروری 1979 کو مینگلے کو فالج کا دورہ پڑا اور وہ برازیل کے شہر برٹیوگا کے قریب تعطیلاتی تفریحی مقام پر دوران تیراکی ڈوب گیا۔ اسے ساؤ پالو کے ایک مضافاتی علاقے میں "وولف گینگ گیرہارڈ" کے نام سے دفن کیا گیا۔

 مینگلے کے جسم کی دریافت اور شناخت

مئی 1985 میں، جرمنی، اسرائیل اور امریکہ کی حکومتوں نے مینگلے کا سراغ لگانے اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا۔ جرمن پولیس نے گنزبرگ، جرمنی میں مینگلے کے ایک خاندانی دوست کے گھر پر چھاپہ مارا تو اس بات کے شواہد ملے کہ مینگلے کی موت ہو گئی تھی اور اسے ساؤ پالو کے قریب دفن کیا گیا تھا۔ جون 1985 میں برازیل کی پولیس نے مینگلے کی قبر تلاش کر لی اور اس کی لاش کو نکالا۔ امریکی، برازیلی، اور جرمن فارنزک ماہرین نے مثبت طور پر ان باقیات کی شناخت جوزف مینگلے کے طور پر کی۔ 1992 میں DNA شواہد نے اس نتیجے کی تصدیق کی۔

 مینگلے 34 سال تک گرفتاری سے بچتا رہا اور اسے کبھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔