آسکر شنڈلر (1974–1908) 28 اپریل، 1908 کو زیواٹو، آسٹریا- ہنگری (آج کا سواٹوی، چیکیا) میں پیدا ہوئے۔ شنڈلر ایک نسلی جرمن اور کیتھولک تھے۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر آسٹرو ہنگری سلطنت کی تحلیل کے بعد شنڈلر نئے قائم شدہ جمہوریہ چیکوسلواک کے شہری بن گئے۔

تجارتی اسکولوں کی ایک سیریز میں شرکت کرنے اور 1928 میں ایمیلی پیلزل سے شادی کرنے کے بعد شنڈلر نے مختلف قسم کی ملازمتیں کیں، جن میں اپنے والد کے فارم مشینری کے کاروبار میں کام کرنا، ڈرائیونگ اسکول کھولنا، اور سرکاری املاک فروخت کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے چیکوسلواک فوج میں بھی خدمات انجام دیں اور 1938 میں ریزروز میں لانس کارپورل کا عہدہ حاصل کیا۔ شنڈلر نے 1936 میں جرمن مسلح افواج کے ایمٹ آسلینڈز/ابویہر (ملٹری فارن انٹیلی جنس کے دفتر) کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ فروری 1939 میں سوڈیٹن لینڈ کے جرمن الحاق کے پانچ ماہ بعد وہ نازی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ وہ زندگی کی نزاکتوں کا احساس لیے ایک موقع پرست تاجرکے طور پر جنگ کے وقت بچانے والا بننے کے لیے ایک غیر متوقع امیدوار لگ رہے تھے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران شنڈلر نے 1,000 سے زیادہ یہودیوں کو نازی جرمنی کے سب سے بڑے کیمپ کمپلیکس آشوٹز میں جلاوطنی سے بچایا۔

شنڈلر کی کراکوو میں "ایمالیا" فیکٹری

کراکاؤ یہودی بستی میں داخل ہونا

پولینڈ پر جرمن حملے اور قبضے کے بعد شنڈلر اکتوبر 1939 میں کراکوو چلے آئے۔ نام نہاد جنرل حکومت (جنرل گورنمنٹ) میں یہودیوں کے زیر ملکیت اور پولش ملکیتی کاروباروں کو "آریانائز" اور "جرمنائز" کرنے کے حوالے سے جرمن تسلط کے پروگرام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہوں نے نومبر 1939 میں یہودی زیر ملکیت مینائی برتن بنانے والی کمپنی Rekord Ltd کو خرید لیا۔ انہوں نے اپنے پلانٹ کو Deutsche Emalwarenfabrik Oskar Schindler (جرمن اینمل ویئر فیکٹری آسکر شنڈلر) کا نام دیا جسے ایمالیا بھی کہا جاتا ہے۔

اگرچہ شنڈلر کراکوو میں دو دیگر فیکٹریاں بھی چلاتے تھے، تاہم صرف ایمالیا میں ہی انہوں نے یہودی کارکنوں کو ملازمت دی جو قریبی کراکوو یہودی بستی میں مقیم تھے۔ 1944 میں اپنے عروج پر ایمالیا میں 1,700 ورکرز ملازم تھے؛ جن میں کم از کم 1,000 یہودی جبری مزدور تھے، جنہیں جرمنوں نے مارچ 1943 میں کراکوو کی یہودی بستی سے جبری مشقت کے کیمپ اور بعد میں حراستی کیمپ کراکوو- پلاسزوو میں منتقل کیا تھا۔

مارچ 1943 سے اگلے سال ایمالیا کے ذیلی کیمپ بننے تک، ایمالیہ میں تعینات یہودی قیدی پلاسزو حراستی کیمپ میں رہتے تھے اور وہاں کے ظالمانہ حالات کا شکار تھے۔ اس دوران شنڈلر نے ان کی طرف سے بار بار مداخلت کی۔

انہوں نے انفرادی طور پر دھمکائے جانے والے یہودیوں کی فلاح و بہبود اور 1944 کے اواخر تک یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ایس ایس اپنے یہودی کارکنوں کو ملک بدر نہ کرے، رشوت اور ذاتی سفارت کاری کا استعمال کیا۔ یہودی کارکنوں کو جنگی کوششوں کے لیے ضروری قرار دینے کے لیے انہوں نے ایمالیا میں اسلحہ سازی کا ایک ڈویژن شامل کیا۔ مارچ 1943 میں کراکوو یہودی بستی کو ختم کرنے کے دوران شنڈلر نے اپنے یہودی کارکنوں کو رات بھر فیکٹری میں رہنے کی اجازت دی۔

"ایمالیا": پلاسزوو حراستی کیمپ کا ایک ذیلی کیمپ

کیمپ کے پتھر توڑنے کے کارخانے میں پتھروں سے بھری ہوئی گاڑیوں کو قیدی عورتیں کھینچ رہی ہیں۔

جنوری 1944 میں ایس ایس کی جانب سے سرکاری طور پر پلاسزوو کے نام کو جبری مشقت کے کیمپ سے حراستی کیمپ میں تبدیل کرنے کے بعد شنڈلر نے ایس ایس کو ایمالیا کو پلاسزوو کے ذیلی کیمپ میں تبدیل کرنے پر آمادہ کیا۔ فیکٹری ورکرز کے طور پر رجسٹرڈ تقریباً 1,000 یہودی جبری مزدوروں کے علاوہ شنڈلر نے دیگر قریبی فیکٹریوں میں کام کرنے والے 450 یہودیوں کو بھی ایمالیا میں رہنے کی اجازت دی۔ انہوں نے انہیں منظم بربریت اور من مانے قتل عام سے بچایا جو پلاسزوو میں روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا۔

یہاں شنڈلر نے بغیر خطرے یا قیمت کے کام نہیں کیا تھا۔ ان کی جانب سے یہودی کارکنوں کا تحفظ فراہم کرنے اور اس کے کچھ مشکوک کاروباری معاملات نے ایس ایس اور پولیس حکام کو ان پر بدعنوانی اور یہودیوں کو غیر مجاز مدد دینے کے حوالے سے شک کرنے پر مجبور کیا۔ جرمن ایس ایس اور پولیس حکام نے انہیں تین بار گرفتار کیا، جب وہ ایمالیا کے مالک تھے لیکن وہ ان پر فرد جرم عائد کرنے سے قاصر تھے۔

شنڈلر کی فہرست

اکتوبر 1944 میں جب ایس ایس نے ایمالیا کے یہودیوں کو پلاسزوو میں منتقل کیا تو شنڈلر نے اپنے پلانٹ کو بوہیمیا اور موراویا (اپنے آبائی شہر کے قریب) کے پروٹیکٹوریٹ برونلِٹز (Brněnec) میں منتقل کرنے اور اسے خصوصی طور پر اسلحہ سازی کے کارخانے کے طور پر دوبارہ کھولنے کی اجازت حاصل کی۔ ان کے ایک اسسٹنٹ نے نئی فیکٹری میں کام کرنے کے لیے درکار 1,200 یہودی قیدیوں کی فہرست کے کئی ورژن بنائے۔ یہ فہرستیں اجتماعی طور پر "شنڈلر کی فہرست" کے نام سے مشہور ہوئیں۔ شنڈلر نے ایس ایس کی طرف سے برونلٹز کو گروس روزین (Gross-Rosen) حراستی کیمپ کے ذیلی کیمپ کے طور پر درجہ بندی کرنے کے لیے درکار تقاضوں کو پورا کیا اور اس طرح 800 کے قریب یہودی مردوں، جنہیں ایس ایس نے پلاسزوو سے بذریعہ گروس روزین تا برونلٹز اور 300 سے 400 کے درمیان یہودی خواتین، جنہیں آشوٹز سے بذریعہ پلاسزوو جلا وطن کر دیا تھا، کی جان بچانے میں مدد دی۔

اگرچہ برونلٹز پلانٹ کی بطور اسلحہ فیکٹری درجہ بندی کی گئی تھی، تاہم یہاں آٹھ ماہ سے کم کام کے وقت میں براہ راست گولہ بارود کی صرف ایک بھری ویگن تیار ہوئی۔ جعلی پیداواری اعداد و شمار پیش کر کے شنڈلر نے ہتھیار سازی کے کارخانے کے طور پر ذیلی کیمپ کے وجود کا جواز پیش کیا۔ اس نے 1,000 سے زیادہ یہودیوں کو زندہ رہنے میں مدد فراہم کی اور انہیں روایتی کیمپ کی زندگی کی ہولناکیوں اور بربریت سے بچایا۔ شنڈلر نے صرف 9 مئی، 1945 کو برن لِٹز ​​کو چھوڑا جب سوویت فوجیوں نے کیمپ کو آزاد کرایا تھا۔

جنگ عظیم دوم کے بعد

جنگ عظیم دوم کے بعد، شنڈلر اور ان کی بیوی ایمیلی 1949 تک جرمنی کے شہر ریگنزبرگ میں آباد رہے، اور پھر ارجنٹائن ہجرت کر گئے۔ 1957 میں ایمیلی سے مستقل طور پر بغیر طلاق علیحدگی کے بعد شنڈلر اکیلے جرمنی واپس آئے۔ شنڈلر کا اکتوبر 1974 میں جرمنی میں غربت اور نامعلوم حالت میں انتقال ہوا۔ ان میں سے بہت سے جن کی بقاء کے لیے انہوں نے سہولت فراہم کی — اور ان کی اولاد — نے اسرائیل میں تدفین کی خاطر ان کی لاش کی منتقلی کے لیے لابنگ کی اور مالی امداد کی۔

1993 میں یاد واشم نے آسکر اور ایمیلی شنڈلر کو ہولوکاسٹ کے دوران یہودیوں کو بڑے ذاتی خطرے میں بچانے کی کوششوں کے اعتراف میں "رائٹس امنگ دی نیشنز" کے خطاب سے نوازا۔  1993 میں بھی، یو ایس ہولوکاسٹ میموریل کونسل نے شِنڈلر کی ہولوکاسٹ کے دوران غیر معمولی کاموں کے لیے بعد از مرگ ان کی خدمات کو سراہا۔ 

شنڈلر کی کہانی نے اسٹیون اسپیلبرگ کی 1993 کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم Schindler's List کی بدولت زیادہ توجہ حاصل کی، جو 1983 میں تھامس کینیلی کے اسی نام کے ناول پر مبنی تھی جس میں شنڈلر کی زندگی اور کاموں کا ذکر کیا گیا تھا۔ فلم کو مقبولیت اور تنقیدی پذیرائی ملی۔