ہولوکاسٹ سے انکار: اہم تاریخیں
یہ ٹائم لائن ہولوکاسٹ سے انکار کی پیش رفت کے کچھ اہم واقعات کی فہرست پیش کرتی ہے۔
ہولوکاسٹ سے انکار سے کیا مراد ہے؟
ہولوکاسٹ، تاریخ کے ان واقعات میں شامل ہے جن کے سب سے زيادہ دستاویزی ثبوت موجود ہيں۔ "ہولوکاسٹ سے انکار" سے مراد یورپ کے یہودیوں کی نازی نسل کشی کے مسلمہ حقائق کی نفی کرنے کی کوششیں ہیں۔ انکار کے عام دعوے یہ ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران 60 لاکھ یہودیوں کا قتل کبھی واقع نہیں ہوا تھا؛ نازیوں نے یہودیوں کو ختم کرنے کی کوئی رسمی پالیسی یا ارادہ نہيں بنایا تھا؛ آشوٹز-برکناؤ کے ہلاکتی کیمپ میں زہریلی گیس کے چیمبرز کبھی موجود نہیں تھے۔
ہولوکاسٹ کے حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنا ایک نیا رجحان ہے۔ عام ترین غلط بیانی میں یہ باتیں شامل ہیں: 60 لاکھ یہودی اموات کا شمار مبالغے پر مبنی ہے؛ کنسنٹریشن کیمپس میں واقع ہونے والی اموات کسی پالیسی کی بجائے بیماری یا بھوک کا نتیجہ تھیں؛ اور این فرانک (Anne Frank) کی ڈائری جعلی ہے۔
ہولوکاسٹ سے انکار عام طور پر یہودیوں سے نفرت کے ذریعہ ہوتا ہے اور یہ الزام عائد کرتا ہے کہ یہودیوں نے ہولوکاسٹ کی اختراع یا مبالغہ آرائی یہودی مفادات کو آگے بڑھانے کی سازش کے تحت کی ہے۔ یہ نظریہ یہودیوں پر سازش، عالمی تسلط اور نفرت انگیز الزامات لگا کر طویل عرصے سے جاری دشمنی کو واضح کرتا ہے جو ہولوکاسٹ کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار تھے۔
ہولوکاسٹ کی تعریف کو سام دشمنی سے جوڑا جا سکتا ہے، لیکن اس موضوع پر توجہ یا آگاہی کے فقدان سے کچھ صورتیں جنم لے سکتی ہیں۔ محرکات سے قطع نظر، ہولوکاسٹ کو مسخ کرنے کی تمام صورتیں انکار اور سام دشمنی کی مزید خطرناک صورتوں کی راہ ہموار کرتی ہیں کیونکہ یہ ہولوکاسٹ کی حقیقت کو مشکوک بناتی ہیں۔
امریکی آئين اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔ لہذا امریکہ میں ہولوکاسٹ سے انکار کرنا یا سام دشمن نفرت انگیز گفتگو استعمال کرنا غیرقانونی نہیں ہے، ماسوائے یہ کہ اس کی وجہ سے تشدد کا شدید خطرہ لاحق ہو۔ دیگر کئی ممالک میں، بالخصوص یورپ میں جہاں ہولوکاسٹ رونما ہوا تھا، ہولوکاسٹ سے انکار اور نفرت انگیز گفتگو کو غیرقانونی قرار دینے والے قوانین موجود ہيں۔
اہم واقعات
یہ ٹائم لائن ہولوکاسٹ سے انکار کی پیش رفت کے کچھ اہم واقعات کی فہرست پیش کرتی ہے۔
1942–44
یورپی یہودیوں کے قتل و غارت کا ثبوت چھپانے کے لئے جرمنوں اور ان کے ساتھیوں نے Aktion 1005 کے کوڈ نام والے ایک آپریشن میں بالزک، سوبیبور اور ٹریبلنکا کے ہلاکتی مراکز میں اجتماعی قبروں کے ثبوت مٹائے اور بابی یار سمیت جرمن مقبوضہ پولینڈ، جرمن مقبوضہ سوویت یونین، اور سربیا بھر سے گولی مار کر ہلاک کرنے والے اجتماعی آپریشنز کے ہزاروں مقامات سے شواہد کو ختم کیا۔
1943
پوزنین میں SS جنرلز کے سامنے تقریر کرتے ہوئےHeinrich Himmler، رائخ لیڈر (Reichsführer) برائے SS (Schutzstaffel؛ حفاظتی سکوارڈن)، نے بیان دیا کہ یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتل کو خفیہ رکھا جائے گا اور کبھی ریکارڈ نہیں کیا جائے گا۔
1955
ولس کارٹو (Willis Carto) واشنگٹن ڈی سی میں لبرٹی لابی نامی ایک اثر و رسوخ والی انتہائی دائیں بازو کی تنظیم قائم کرتا ہے۔ 2001 میں دیوالیہ ہونے تک کارٹو کی سربراہی میں لبرٹی لابی نے "نسلی اعتبار سے خالص" امریکہ کا مطالبہ کیا اور یہودیوں کو امریکہ اور دنیا کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ 1969 میں لبرٹی لابی نے ہولوکاسٹ کے انکار کے متعلق مواد شائع کرنا شروع کیا۔
1959
کلیسائی امریکی جیرالڈ ایل کے سمتھ (Gerald L. K. Smith) کی سام دشمن اشاعت، صلیب اور جھنڈا
(Cross and the Flag)، دعویٰ کرتی ہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران 60 لاکھ یہودی مارے نہیں گئے تھے بلکہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکہ ہجرت کر گئے تھے۔
1964
نازیوں کی نظر بندی میں رہنے والے ایک فرانسیسی کمیونسٹ پال ریسنر نے یورپی یہودیوں کا ڈرامہ (The Drama of European Jewry) شائع کیا جس میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ گیس چیمبرز "صہیونی تنظیم" کی ایجاد تھے۔
1966–67
امریکی تاریخ دان ہیری ایلمر بارنس (Harry Elmer Barnes) نے لبرٹیرئین رسالے Rampart Journal میں ایک مقالہ شائع کیا جس میں دعویٰ کیا کہ اتحادیوں نے نازی مظالم کی تفصیل بتانے میں مبالغے سے کام لیا ہے تاکہ محوری قوتوں کے خلاف جارحانہ جنگ کا جواز پیش کیا جا سکے۔
1969
لبرٹی لابی کی ذیلی کمپنی نون ٹائیڈ پریس نے The Myth of the Six Million کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی۔
1973
فلاڈیلفیا کی لاسال یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر آسٹن جے ایپ (Austin J. App) نے ایک کتابچہ شائع کیا: (The Six Million Swindle): Blackmailing the German People for Hard Marks with Fabricated Corpses۔ یہ کتابچہ مستقبل میں ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کے دعوں کی بنیاد بننے لگا۔
1976
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں انجنئیرنگ کے پروفیسر آرتھر آر بٹز نے The Hoax of the Twentieth Century شائع کی: یورپی یہودیوں کی فرضی نسل کشی کے خلاف کیس (The Case Against the Presumed Extermination of European Jewry)۔ بٹز ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والا پہلا شخص تھا جس نے اپنی دروغ گوئیوں کو چھپانے کے لئے تعلیمی تحقیق کے سہارے کو استعمال کیا۔ اس کے جواب میں نارتھ ویسٹرن نے بٹز کے بیانات کو یونیورسٹی کے لئے "شرم ناک" قرار دیا۔
1977
کینیڈا میں رہنے والے ایک جرمن شہری ارنسٹ زنڈل نے سامیسڈیٹ پبلشرز قائم کی جس میں نازیوں کی حمایت کرنے والا مواد جاری ہونے لگا، جس میں ہولوکاسٹ سے انکار بھی شامل تھا۔ 1985 میں کینیڈا کی حکومت نے زنڈل پر جان بوجھ کر غلط معلومات کی فراہمی کے الزام میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
1977
ڈیوڈ ارونگ نے "ہٹلر کی جنگ" Hitler's War شائع کی جس میں یہ اصرار کیا گیا ہے کہ ہٹلر نے یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے لئے کسی نازی پالیسی کا نہ کبھی حکم دیا اور نہ ہی اس کی معافی دی۔ اپنے مقالے کا جواز ثابت کرنے کے لئے ارونگ نے تاریخی شواہد اور تحقیقی اصولوں کو مسخ کیا۔
1978
ولیم ڈیوڈ میک کالڈن (جو لیوس برانڈن کے نام سے بھی مشہور ہے) اور ویلس کارٹو نے کیلیفورنیا میں انسٹی ٹیوٹ برائے تاریخی جائزہ (IHR) قائم کیا، جو ہولوکاسٹ کے انکار سے متعلق مواد شائع کرتا ہے اور کانفرنسوں کو سپانسر کرتا ہے۔ IHR علم کی جائز تحقیق کی آڑ میں اپنے نفرت انگیز اور نسل پرست پیغامات چھپاتا ہے۔
1980
IHR نے کسی بھی ایسے شخص کو پچاس ہزار ڈالر انعام دینے کا وعدہ کیا جو یہ ثابت کرے کہ یہودیوں کو آشوٹز میں گیس سے ہلاک کیا گیا تھا۔ ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والا میل مرملسٹائن آشوٹز میں اپنی حراست کا ایک توثیقی بیان جمع کرواتا ہے اور جب انسٹیٹیوٹ نے ادائیگی کرنے سے انکار کیا تو IHR کے خلاف مقدمہ درج کرواتا ہے۔ اکتوبر 1981 میں عدالتِ عالیہ کے جج تھامس ٹی جانسن "عدالتی نوٹس"استعمال کرتے ہیں جو عدالتوں کے لئے ممکن بناتا ہے کہ وہ عمومی طور پر دستیاب حقائق کو تسلیم کریں اور ایک حکم جاری کریں کہ ہولوکاسٹ ایک حقیقت تھا اور یہ کہ یہودیوں کو آشوٹز میں گیس کے ذریعے مارا گیا تھا۔
1981
فرانسیسی عدالت میں ادب کے پروفیسر رابرٹ فاریسون کو ہالوکاسٹ کو "تاریخی جھوٹ" کہنے کی وجہ سے نفرت اور امتیازی تعصب کو اکسانے کے الزام میں قصور وار قرار دیا گیا۔
1984
کینیڈا کی عدالت نے پبلک اسکول کے استاد جیمز کیگسٹرا کو اپنے سماجی مطالعہ کے طلباء کو ہولوکاسٹ سے انکار اور دوسرے سام دشمن نظریات سکھانے کے لئے "کسی قابل شناخت گروپ کے خلاف جان بوجھ کر نفرت کو فروغ دینے" کے الزام میں قصوروار قرار دے دیا۔
1985
اس وقت کے مغربی جرمنی کے کرمنل کوڈ کو اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ نفرت کو اکسانے کی ممانعت کرنے والی صورتوں کو شامل کیا جائے جس میں ہالوکاسٹ سے انکار کے ساتھ منسوب صورتیں شامل ہیں۔ جرمن حکومت نے اس قانون کو دوبارہ 1992، 1994، 2002، 2005، اور 2015 میں اپ ڈیٹ کیا اور مضبوط بنایا۔
1986
8 جولائی کو اسرائیلی پارلیمان نے ہولوکاسٹ سے انکار کو جرم قرار دینے کے لئے ایک قانون پاس کیا۔
1987
کیلیفورنیا میں رہنے والے بریڈلی اسمتھ نے ہولوکاسٹ کے متعلق کھلے مباحثے کے لئے کمیٹی قائم کی۔ 1990 کی دہائی کے شروع میں اسمتھ کی تنظیم نے درجن بھر سے زائد امریکی کالجوں کے اخباروں میں پورے صفحے کے اشتہار یا ایڈیٹوریل چھپوائے جن کی شہ سرخی یہ تھی "ہالوکاسٹ کی کہانی: کس قدر جھوٹ ہے؟ کھلے مباحثے کے لیے کیس" (“The Holocaust Story: How Much is False? The Case for Open Debate.”) اسمتھ کی مہم کی وجہ سے نفرت انگیزی اور آزادی اظہار کے درمیان فرق ختم ہونے لگا۔
1987
فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ پارٹی کی سربراہ جین مری لے پین نے گیس چیمبروں کو دوسری جنگ عظیم کی محض "باریکی" قرار دیا۔ لے پین نے 1988 میں فرانس کی صدارتی مہم میں حصہ لیا اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔
1987
مراکشی اور سویڈن نژاد مصنف احمد رامے نے سویڈن سے تعلق رکھنے والے ریڈيو اسلام پر نشریات شروع کی۔ یہ اسٹیشن ہولوکاسٹ کو صہیونی یا یہودی دعویٰ قرار دینے لگا۔ اس کے بعد ریڈیو اسلام نے The Protocols of the Elders of Zion, Mein Kampf, اور دوسرے سام دشمن مواد کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا۔
1988
ارنسٹ زنڈل کی درخواست پر فریڈ لیوختر (جو قتل و غارت کے طریقوں ميں خود کو ماہر سمجھتا تھا) آشوٹز کے ہلاکتی مرکز کے مقام پر گیا۔ بعد ازاں اس نے Leuchter Report شائع کی: آشوٹز، برکناؤ اور مجڈانک، پولینڈ میں مبینہ ہلاکتی گیس چیمبرز پر ایک انجینئرنگ رپورٹ، جس کو ہالوکاسٹ کا انکار کرنے والوں کی جانب سے پیش کیا گیا تاکہ اجتماعی قتل کے لئے گیس چیمبرز کے استعمال کو مشکوک کیا جائے۔
1989
سفید فام افراد کو برتر سمجھنے والے ڈیوڈ ڈيوک نے لویزیانا کے ریاستی قانون ساز ادارے میں سیٹ جیت لی۔ ڈيوک نے اپنے قانون ساز دفتر سے ہولوکاسٹ کے انکار پر مشتمل مواد فروخت کرنا شروع کردیا۔
1990
فرانسیسی حکومت نے گیسوٹ قانون جاری کیا جس کے مطابق انسانیت کے خلاف جرائم (1945 کے لندن چارٹر کے تحت واضح کردہ) کے پیمانے یا حقیقت پر سوالیہ نشان اٹھانے کو جرم قرار دیا گيا۔ 1990 کی دہائی اور 2000 کے اوائل میں یہ قانون دوسرے کئی یورپی ممالک کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ مماثل قوانین اپنائیں۔
1990
میساچوسیٹس کی ریاست کی طرف سے فریڈ لیوخٹر کے خلاف قانونی کارروائی کے دوران معلوم ہوا کہ لیوخٹر کے پاس نہ تو انجنئیرنگ کی ڈگری تھی اور نہ ہی لائسنس تھا۔ لیوختر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اس نے حیاتیات، مطالعہ سمیات یا کیمیا میں کسی بھی قسم کی تربیت حاصل نہيں کی، جن میں سے تمام 1988 میں شائع ہونے والی اور ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کے دعوں کی بنیاد بننے والیLeuchter Report کے لئے اہم ہیں، جس کا حوالہ اکثر ہولوکاسٹ کے منکرین کی جانب سے دعوؤں کی حمایت میں دیا جاتا ہے۔
1990
سویڈن کی عدالت نے احمد رامے کو "نفرت انگیزی" کے الزام میں چھ ماہ قید کی سزا دی اور ایک سال کے لئے ریڈيو اسلام کا نشریاتی لائسنس منسوخ کردیا۔
1991
امریکی تاریخی تنظیم نے، جو کہ تاریخ دانوں کی سب سے پرانی پیشہ ورانہ تنظیم ہے، بیان جاری کیا: "کوئی بھی سنجیدہ تاریخ دان یہ سوال نہیں اٹھا سکتا کہ کیا ہولوکاسٹ وقوع پذیر ہوا تھا۔"
1992
آسٹریا کی حکومت نے اپنے 1947 کے ممانعتی قانون میں ترمیم کی تاکہ ہالوکاسٹ کے انکار اور اس کا مضحکہ اڑانے کو جرم تصور کیا جائے۔
1998
پولینڈ کی حکومت نے "قومی یادگار کے انسٹیٹیوٹ سے متعلق ایکٹ - پولش قوم کے خلاف جرائم کی مقدمہ سازی کا کمشن" اپنا لیا۔ یہ آئین سازی کا ایک اہم حصہ ہے جو کہ نازی قبضے اور کمیونسٹ اقتدار کے سالوں کے دوران پولینڈ میں ہونے والے جرائم کے ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایسی بیرونی شرائط بھی لاگو کرتا ہے جوہولوکاسٹ کی تاریخ کے انکار اور مسخ کرنے کی صورتوں کے تدارک کا جتن کریں۔
1999
اوپول، پولینڈ میں ایک علاقائی عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ ایک مقامی پروفیسر ڈاریسز رٹاجزک ہولوکاسٹ سے انکار کے مواد کی ذاتی اشاعت کا مجرم ہے۔
2000
46 حکومتیں ہولوکاسٹ پر سٹاک ہوم بین الاقوامی فورم کے اعلامیے کے اسلوبِ بیان سے متفق ہیں اور اس کی تائید کرتی ہیں۔ اس کو "سٹاک ہوم اعلامیے" کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہے کہ ہولوکاسٹ پر تحقیق، تعلیم، اور یادداشت کو ہمیشہ جاری رکھا جائے اور یہ کہ "ہولوکاسٹ کی بھیانک سچائی کو ان لوگوں کے خلاف سربلند رکھا جائے جو اس کا انکار کرتے ہیں۔"
2000
ایک برطانوی عدالت نے ڈيوڈ ارونگ کو "ہولوکاسٹ کا فعال منکر" قرار دے دیا۔ ارونگ نے ایمری یونیورسٹی کی تاریخ دان ڈیبرا لپسٹیڈٹ پر 1993 میں چھپنے والی کتاب Denying the Holocaust The Growing Assault on Truth and Memory کے بعد توہین کا دعوی کر دیا تھا۔
2002
متحدہ عرب امارات میں واقع لیگ برائے ریاست ہائے عرب کے ایک تھنک ٹینک، زید مرکز برائے روابط اور فالواپ، "سامیت" پر ایک علمی مذاکرہ (سمپوزیم) کا انتظام کرتا ہے۔ سمپوزیم میں ہالوکاسٹ کو ایک "جھوٹا فسانہ" کہا جاتا ہے۔ مرکز کی امریکا مخالف اور یہود مخالف اشاعتوں اور لیکچرز کے بارے میں بیرونی دباؤ کے بعد اگست 2003 میں UAE کی حکومت زید مرکز کو بند کر دیتی ہے۔
2002
رومانیہ ایک ہنگامی آرڈننس منظور کرتا ہے جس میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران 280,000 یہودیوں اور 11,000 روما (خانہ بدوشوں) کی اموات کی سرپرستی کرنے والے ایک فاشسٹ آمر جنرل یوان آنتونیسکو کو عوامی طور پر بحال کرنے کی زور پکڑتی ہوئی تحریک کے جواب میں ہولوکاسٹ کے انکار کو جرم قرار دیا جاتا ہے۔
2002
نفرت انگیز تقریروں کے ضوابط کی شرائط کے تحت سویڈش عدالت نے نو-نازی فریڈرک سینڈبرگ کو تیسرے رائخ دور کے کتابچے The Jewish Question کی مکرر اشاعت کے لئے جیل میں چھ ماہ کی سزا سنائی۔
2003
گورڈی وی فرانس کے کیس میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق فیصلہ کرتی ہے کہ راجر گورڈی ہولوکاسٹ کے انکار کی ان صورتوں میں ملوث پایا گیا ہے جنہیں یورپیئن کمیشن برائے انسانی حقوق کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔
2003
ولفگانگ فرولچ کو Die Gaskammaer Luege (گیس چیمبر کا جھوٹ) کے عنوان سے کتاب کی 2001 میں اشاعت کے بعد ویانا میں گرفتار کیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسے ایک سال بعد رہا کر دیا گیا۔ آنے والے سالوں میں فرولچ کو دوبارہ گرفتار کیا گیا یا اس کی سزا کو متعدد بار بڑھا دیا گیا جس کا سبب ہولوکاسٹ کے انکار کے مسلسل واقعات تھے، جن میں 2015 میں آسٹرئین چانسلر کو لکھتے ہوئے یہ دعوی کرنا شامل تھا کہ ہولوکاسٹ کبھی واقع ہو نہیں سکتا تھا۔
2003
رومانین حکومت رومانیہ میں ہالوکاسٹ پر ایک بین الاقوامی کمیشن قائم کرتی ہے جس کی سربراہی ایلی ویزل کر رہے تھے۔ یہ 30 رومانیئنز اور غیر ملکی مؤرخین پر مشتمل تھی۔ کمیشن کا مقصد یہ تھا کہ رومانیہ میں ہولوکاسٹ کی تاریخ کی جانچ پڑتال کی جائے تاکہ ان حقائق کی نشاندہی کی جائے جو وقوع پذیر ہوئے اور ملک کے اندر اور بیرون ملک تحقیق کے نتائج کو منتشر کیا جائے۔ کمیشن کا قیام 2003 کے آغاز میں اس وقت کے صدر یوان لیسکو کے عوامی بیانات کا تعاقب کرتا ہے جنہوں نے رومانیہ میں ہالوکاسٹ کو کمتر بتایا، اور سابقہ وزیرِ اطلاعات وسائل ڈنکو جنہوں نے رومانیہ میں ہولوکاسٹ سے انکار کیا تھا۔
2005
آسٹرئین حکومت نے ہولوکاسٹ سے انکار کی وجہ سے ڈیوڈ ارونگ کو گرفتار کر لیا۔ اسے 2006 میں تین سال کی سزا ہوئی لیکن اسے آسٹریا چھوڑنے سے مشروط کرتے ہوئے دسمبر میں رہا کر دیا گیا۔
2005
کینیڈا کی حکومت ارنسٹ زنڈل کو جرمنی جلا وطن کر دیتی ہے تاکہ اس پر ہولوکاسٹ کے انکار کا ٹرائل کیا جائے۔ 2007 میں جرمن عدالتوں نے زنڈل کو ہولوکاسٹ سے انکار پر 14 فردِ جرم سنائیں، جس کے لئے اس نے پانچ سال کی قید کاٹی۔
2005
14 دسمبر کو ٹیلیویژن پر ایک تقریر کی براہ راست نشریات میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ہولوکاسٹ کو ایک "تصوراتی داستان" کہا۔
2005
جاپانی رسالہ Marco Polo ایک مضمون شائع کرتا ہے جو ایک فری لانس مصنف ماسانوری نشیوکا کی جانب سے لکھا گیا جس کا عنوان تھا "وہاں کوئی نازی گیس چیمبر نہیں پائے جاتے تھے۔" مضمون میں نشیوکا دعوی کرتا ہے کہ ہولوکاسٹ کبھی واقع نہیں ہوا اور یہ کہ آشوٹز کے گیس چیمبرز کو جنگ کے بعد پولش کمیونسٹ حکومت کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا۔
2006
ایران کی حکومت نے تہران میں ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کی ایک میٹنگ کو سپانسر کیا جسے “ہولوکاسٹ کا جائزہ: عالمی تصور” کہلانے والی تعلیمی کانفرنس کی آڑ میں منعقد کیا گيا۔ اسی سال ایرانی اخبار ہم شہری Hamshahri کا گرافک ایڈیٹر فرید مرتضاوی جیتنے والوں کے لئے سونے اور نقد انعام کے ساتھ ہولوکاسٹ کارٹونز کے مقابلے کا اعلان کرتا ہے۔ اس میں 60 سے زیادہ ممالک کی جانب سے 1200 کے قریب کارٹون جمع کروائے گئے جن میں ہولوکاسٹ کا انکار یا تصغیر کرنے والے کارٹونز شامل تھے۔ اسی سال بعد ازاں تہران میں صبا آرٹ اور کلچرل انسٹیٹیوٹ ایک نمائش کا آغاز کرتا ہے جس کو ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی جانب سے سپانسر کیا گیا تھا، جس میں مقابلے میں سے 200 کارٹونز کا انتخاب رکھا گیا تھا۔
2007
26 جنوری کو اقوام متحدہ نے ہولوکاسٹ سے انکار کی مذمت کے لئے قرارداد منظور کی۔ جنرل اسمبلی نے اپنے بیان میں کہا کہ انکار "نسل کشی کی منظوری کی تمام صورتوں کے مترادف ہے۔"
2008
یورپین یونین نسل پرستی اور زینوفوبیا (2008/913/JHA) کے سدباب پر ایک فریم ورک فیصلہ لیتی ہے جس میں کسی بھی یورپین یونین کی رکن ریاست کے لئے اس بات کو یقینی بنانے کی التجا شامل ہے کہ ہولوکاسٹ کا انکار قانون کی جانب سے قابل تعزیر ہے۔
2009
برطانوی نژاد کیتھولک بشپ رچرڈ ولیمسن نے گیس چیمبرز کی موجودگی سے انکار کیا اور ہولوکاسٹ کے دوران ہلاکتوں میں خاطرخواہ کمی بتائی۔ ویٹکن نے ولیمسن کو حکم دیا کہ اپنے بیانات کو واپس لے۔ جب اس نے ایسا نہیں کیا تو ویٹکن نے ولیمسن کو چرچ سے خارج کر دیا۔
2009
کو کلاکس کلان کے سابقہ لیڈر ڈیوڈ ڈیوک کو ہالو کاسٹ سے انکار کرنے اور نفرت کا پرچار کرنے کی وجہ سے چیک حکام کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کو (قومی مزاحمت) نارودنی اوڈپور گروپ کی جانب سے چارلس نیشنل یونیورسٹی میں گفتگو کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ چیک حکومت نے ڈیوک کو اگلے دن ہی ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کردیے۔ پراگ میں ریاست کے مدعی مقدمہ کے آفس نے بعد ازاں شہادت کے فقدان کی وجہ سے الزامات ختم کر دئیے۔
2010
بریڈلی اسمتھ نے ہولوکاسٹ سے انکار کا اپنا پہلا آن لائن اشتہار شائع کیا جو فروری میں یونیورسٹی آف وسکنسن کی ویب سائٹ Badger Herald پر دکھایا گیا۔ انٹرنیٹ رسائی اور ابلاغ کرنے کی آسانی بظاہر گم نامی اور تصور کردہ اختیار کی وجہ سے اب ہولوکاسٹ سے انکار کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔
2010
ڈچ کی درخواست پر عدالت نے 2006 میں اپنی ویب سائٹ پر ایک کارٹون کو شائع کرنے پر عرب یورپین لیگ (AEL) پر 2500€ کا جرمانہ عائد کیا جو اس بات کی عکاسی کرتا تھا کہ ہولوکاسٹ کو یہودیوں کی جانب سے گھڑا گیا یا اس میں مبالغہ آرائی کی گئی تھی۔ AEL کے مطابق تنظیم نے ڈنمارک کے اخبار کے پیغمبر محمد کا خاکہ شائع کرنے کے بعد آزادئ تقریر کے دہرے معیارات کو نمایاں کرنے کے لئے کارٹون شائع کیا تھا۔ عدالت نے AEL پر 2 سالہ نگرانی کی مدت کا اطلاق بھی کیا تھا۔
2010
لتھوانیا نے اپنے کرمنل کوڈ کو اپ ڈیٹ کیا تاکہ نازی جرائم کے انکار اور شدید کم اہم سمجھنے اور لتھوانیا میں سوویت باشندوں کی جانب سے روا رکھے گئے جرائم کے خلاف ایک قانون شامل کیا جائے۔
2010
ہولوکاسٹ کے انکار پر حال ہی میں اپنے منظور شدہ قانون کے تحت لتھوانین حکام نے ایک مضمون شائع کرنے پر لتھوانین رسالے ویڈاس (Veidas) پر تفتیش کی جس میں نورمبرگ ٹرائلز کو "تاریخ میں سب سے بڑا قانونی ناٹک" کہا گیا۔ مقامی تفتیش کاروں کے واضح کرنے کے بعد کہ مصنف ہولوکاسٹ سے انکار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا، تفتیش کو 2011 کے آغاز میں ختم کر دیا گیا تھا۔
2011
مصر کی وفد پارٹی کے نائب صدر نے ایک انٹرویو میںWashington Times کو بتایا کہ 11 ستمبر کے دہشت گرد حملے، ہالوکاسٹ، اور این فرینک کی ڈائری سب تاریخی جعلسازیاں ہیں۔ احمد عزالعرب نے کہا، "ہالوکاسٹ ایک جھوٹ ہے"۔ انہوں نے مزید کہا، "جرمن قبضے کے تحت یہودی محض 2.4 ملین تھے۔ تو اگر وہ سب ہلاک کر دیے گئے تھے تو باقی 3.6 ملین کہاں سے آئے تھے؟"
2012
یونان کی انتہائی دائیں بازو کی گولڈن ڈان پارٹی کے سربراہ نکولس میکالولیاکوس ہولوکاسٹ کے دوران نازی حراستی کیمپوں میں گیس چیمبرز کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو کے دوران کہا، "کوئی تندور نہیں تھے، کوئی گیس چیمبر نہیں تھے، یہ ایک جھوٹ ہے"۔
2012
سعودی مذہبی رہنما سلمان العودہ نے روتانا خلیجیہ ٹی وی کو بتایا کہ "ہولوکاسٹ کی ایک تاریخی بنیاد ہے۔ اس کے بارے میں بہت سی کہانیوں کی دستاویزبندی کی گئی ہے اور اچھی طرح گھڑا گیا ہے۔ اولاً ہولوکاسٹ کے مبالغے میں ہی مسئلہ ہے۔ یہ زبردست تناسب کی حامل فرضی داستان بن چکی ہے.... ہزاروں سالوں سے یہودیوں نے اذیتوں، ملک بدریوں، ہلاکتوں اور الزامات کا سامنا کیا ہے۔ شاید ان میں سے کافی مسائل ان کی اخلاقی قدروں، ان کی دغا باز فطرت، ان کی سکیموں، اور چالبازیوں سے پیدا ہوئے ہیں جس نے دوسری اقوام کو ان سے محتاط کر دیا ہے۔"
2012
یورپی پارلیمنٹ کے رومانین لیڈر اور نیشنلسٹ گریٹر رومانیہ پارٹی کے رہنما کارنیلیو ٹیوڈر نے ایک مکالماتی شو"Romania a la Raport" میں ہولوکاسٹ سے انکار کیا۔ ٹیوڈر کہتے ہیں، "رومانیہ میں کوئی ہولوکاسٹ نہیں ہوا تھا.... میں اس کا انکار اس وقت تک کروں گا جب تک میں مر نہیں جاتا کیونکہ مجھے اپنے لوگوں سے پیار ہے۔"
2013
ہالوکاسٹ کے یادگاری دن پر مصری صدر محمد مرسی کے نائب فتحی شہاب الدم دعوی کرتے ہیں کہ وہ 6 ملین یہودی جو نازیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے، انہیں دراصل امریکا منتقل کیا گیا تھا۔ شہاب الدم کا کہنا تھا، “امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنے اتحادی ہم منصبوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اسے تخلیق کیا تھا[the Holocaust] تاکہ جرمنی میں ان کے مخالفین کے تصور کو تباہ کیا جائے اور تاکہ محوری قوتوں کی ملٹری اور سویلین سہولت گاہوں کے خلاف جنگ اور بھاری تباہ کاری اور بالخصوص ہیروشما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسانے کا جواز فراہم کیا جائےْ‘‘
2013
گیوری ناگے پہلا ہنگرین تھا جس پر ہولوکاسٹ کے انکار کا الزام لگایا گیا۔ ناگے نے بوڈاپسٹ میں 2011 کے مظاہروں کے دوران ایک نشان اٹھایا ہوا تھا جس پر عبرانی زبان میں پڑھا جا سکتا تھا "ہولوکاسٹ کبھی نہیں ہوا تھا"۔ عدالت نے اسے 18 مہینے قید اور نگرانی کی سزا سنائی۔ اس کی سزا کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ یا تو بوڈاپسٹ، آشوٹز، یا یاد واشم کے ہولوکاسٹ یادگاری عجائب گھر میں جائے۔
2013
بین الاقوامی ہولوکاسٹ کے یادگاری اتحاد کے اس وقت کے 31 ممالک نے "ہولوکاسٹ کے انکار اور تحریف کی ایک کارآمد تعریف" منظور کی جو ان چند طریقوں کی نشاندہی کرتی ہے جن میں انکار اور تحریف ظاہر ہو سکتی ہے۔ 2013 سے متعدد ممالک نے اس تعریف کو قومی سطح پر اپنایا ہے تاکہ اس مسئلے تک ان کی رسائی میں رہنمائی ممکن ہو سکے۔
2014
جرمنی کی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کے سابق رہنما اوڈو فوکٹ کو یورپین پارلیمنٹ کی شہری آزادیوں، انصاف اور داخلہ امور کی کمیٹی پر نامزد کیا گیا۔ NDP کے لیڈر ہوتے ہوئے، جو نو نازی نظریات کی حامی ہے، فوکٹ نے ایڈولف ہٹلر کی تعریف کی اور دعویٰ کیا کہ ہولوکاسٹ میں چھ ملین سے کم یہودیوں کا قتل ہوا تھا۔ ان پر "لوگوں کو اکسانے" کا الزام لگایا گیا۔
2014
2014 کے نوروز کے اپنے رسمی خطاب میں ایرانی آیت اللہ علی خمینی نے تبصرہ کیا: "ہولوکاسٹ ایسا واقعہ ہے جس کی سچائی غیر یقینی ہے اور اگر یہ ہوا تھا تو یہ غیر یقینی بات ہے کہ یہ کیسے ہوا تھا۔"
2014
رشین فیڈریشن اپنے کرمنل کوڈ کو اپ ڈیٹ کرتی ہے تاکہ ان شرائط کو شامل کیا جائے جو ہولوکاسٹ کے انکار کی صورتوں کو اور "دوسری جنگ عظیم کے دوران USSR کی سرگرمیوں کے جعلی ڈیٹا" کی اشاعت کو جرم ثابت کرتی ہیں۔
2015
دو ایرانی حکومتی سپانسر شدہ ثقافتی تنظیموں اوج میڈیا اور آرٹ انسٹیٹیوٹ اور سرچشمہ ثقافتی کمپلیکس نے درجنوں ممالک میں کارٹونسٹوں کی جانب سے شراکتیں وصول کرنے کی توقع کرتے ہوئے ہولوکاسٹ کارٹون کے دوسرے مقابلے کا اعلان کیا۔
2015
ایک جرمن عدالت نے ارسلا ہیوربک کو سرکش بغاوت کا ملزم ٹھہرایا جب اس نے ڈیٹمولڈ کے میئر کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ "واضح طور پر قابلِ شناخت" ہے کہ آشوٹز ایک مزدور کیمپ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ اس نے اپنا پیغام اس وقت بھیجا جب ڈیٹمولڈ عدالت آشوٹز کیمپ کے ایک سابقہ گارڈ رینہولڈ ہیننگ پر مقدمہ چلا رہی تھی۔ 2014 میں اس پر یہ کہنے کی وجہ سے مقدمہ دائر کیا گیا کہ ہولوکاسٹ "تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل ترین جھوٹ ہے۔"
2015
رومانیہ نے ہولوکاسٹ کے انکار کے خلاف اپنے موجودہ قانون میں ضمیمہ شامل کیا تاکہ اس میں انکار اور تحریف کی وہ صورتیں شامل کی جائیں جو رومانین آئرن گارڈ کے ورثے اور منسوب تصاویر میں شامل ہیں۔
2015
ہنگری کی حکومت ایک ہنگرین سرکاری افسر بالنٹ ہومن کے اعزاز میں ایک مجسمہ تعمیر کرنے کے لئے فنڈنگ فراہم کرتی ہے جس نے جنگ کے سالوں اور ہولوکاسٹ کے دوران سام دشمن پالیسیوں کو سپانسر کیا تھا اور سام دشمن نظریات کی حمایت کی تھی۔ 2015 کے آخر میں ہنگرین اعلیٰ حکام نے اعلان کیا کہ ہومن کے منفی تاریخی ورثے کی وجہ سے پروجیکٹ کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔
2015
یوکرائن کی حکومت نے عدم اشتراکیت کے نام نہاد متعدد قوانین منظور کئے۔ اگرچہ یہ قوانین کمیونسٹ اور نازی نشانات کو استعمال کرنے کی ممانعت کرتے تھے، مخصوص شقیں سوویت مخالف مزاحمت کے مخصوص قومی ہیروز پر تنقید کی ممانعت بھی کرتی تھیں لیکن ان میں کچھ ایسے اشخاص بھی شامل ہیں جن کے تاریخی ریکارڈ میں ہولوکاسٹ کے سالوں کے دوران یہودیوں اور نسلی پولز کے خلاف نازیوں کے ساتھ تعاون اور جرائم شامل تھے۔
2016
ہولوکاسٹ کے بین الاقوامی یادگار دن پر اعلیٰ ترین لیڈر آیت اللہ علی خمینی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو نشر کی جس کا عنوان تھا "ہولوکاسٹ: کیا قرونِ مظلمہ گزر چکی ہیں؟" اس میں اپنے 2014 کے تبصرے کو شامل کرتے ہوئے دوسری جنگِ عظیم کے دوران چھ ملین یہودیوں کی اجتماعی خون ریزی پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
2016
تہران کے اسلامک پروپیگنڈا مرکز کے آرٹ سیکشن میں تہران کے گیارہویں بین الاقوامی کارٹون کے دو سالہ موقعے میں سے 150 ہولوکاسٹ کارٹونز کو پیش کرنے والی نمائش کا آغاز ہوا۔ دو ہفتوں بعد ہولوکاسٹ کارٹون مقابلے کے فاتحین کے لئے ایوارڈ کی ایک تقریب منعقد کی گئی۔ تہران میوزیم برائے ہم عصر آرٹ اور وزارتِ ثقافت کے ڈائریکٹر اور اسلامی رہنمائی کے گرافکس آرٹ سیکشن کے سربراہ ماجد ملانوروزی نے ایوارڈ کی تقریب میں حصہ لیا۔ انعامات کی مجموعی مالیت پچاس ہزار ڈالر رپورٹ کی گئی۔
2016
پولش کابینہ ایک بل منظور کرتی ہے جس میں مقبوضہ پولینڈ میں نازی جرمنی کی جانب سے چلائے گئے موت کے کیمپس کو "پولش" کا حوالہ دینے کا الزام ثابت ہونے والے کسی شخص پر قید کی سزا لاگو ہوگی۔ اس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہودیوں کا خاتمہ کرنے میں نازیوں کے ساتھ پولز کی معاونت کو بھی مجرمانہ حملہ تصور کیا جائے گا۔
2016
ہولوکاسٹ کی بین الاقوامی یادگار کے اتحاد نے اپنی "قانونی طور پر پابند نہ کرنے والی سامیت مخالف فعال تعریف" منظور کی۔ اس تعریف میں وہ زبان شامل ہے جو نشاندہی کرتی ہے کہ ہولوکاسٹ کا انکار کیسے سامیت مخالف ہونے کی ایک صورت ہے۔ 2016 سے 20 سے زائد ممالک نے قومی سطح پر استعمال کے لئے اس تعریف کو اپنایا ہے۔
2018
جنوری میں پولینڈ کی حکومت انسٹی ٹیوٹ برائے قومی یادگار پر اپنے قانون میں ترمیم کرتی ہے تاکہ ایسے دعوے شامل کئے جائیں جو"حقائق کے برعکس" نازی جرائم کے لئے "پولش قوم یا پولش ریاست کی ذمہ داری یا مشترکہ ذمہ داری" کو منسوب کرتے ہیں۔ اصل ترمیم ایسے ایکٹس کو فوجداری بناتی ہے لیکن جون میں حکومت قانون کو تبدیل کرتی ہے جس میں ایسے دعووں کو شہری ہتک قرار دیتی ہے۔
2018
روم کے میئر نے حکم دیا کہ شہر کی سڑکوں کا نام اطالوی فاشسٹوں یا ایسے اطالوی شہری جو معروف فاشسٹ تھے، ان کے ناموں پر مزید رہنے نہیں دیا جائے گا۔
2020
جرمن حکومت نے خصوصی فنڈنگ مختص کی تاکہ ہولوکاسٹ کے انکار اور تحریف کے خلاف ایک عالمی ٹاسک فورس بنائی جائے۔